رواہ غیرہ کالحدیث الذی تفرد بروایة جملتہ ثقة ولا تعرض فیہ لما رواہ الغیر لمخالفة اصلا فھذا مقبول وقد ادعی الخطیب فیہ اتفاق العلماء علیہ وسبق مثالہ فی نوع الشاذ الثالث ما یقع بین ھاتین المرتبتین مثل زیادة لفظة فی حدیث لم یذکر ھا سائر من روی ذلک الحدیث مثالہ … فاخذبھا غیر واحد من الئمة واحتجوا بھا منھم الشافعی و احمد رضی اللّٰه عنہم انتھی۔ اس عبارت کا حاصل بھی یہی ہے کہ کسی ثقہ راوی کی زیادتی اسی صورت میں نا مقبول اور مردود ہے جب کہ وہ دوسروں کی روایت کے منافی اور معارض ہو۔اسی بات کو حافظ ابن حجر نے زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھا ہے۔فرماتے ہیں: وزیادة اویھما ای الصحیح والحسن مقبولة ما لم تقع منافیة لروایة من ھو اوثق ممن لم یذکر تلک الزیادة لان الزیادة اما ان تکون لا تنافی بینھا وبین روایة من لم یذکرھا فھذہ تقبل مطلقاً لانھا فی حکم الحدیث المستقل الذی یتفرد بہ الثقة ولا یرویہ عن شیخہ غیرہ واما ان تکون منافیة بحیث یلزم من قبولھا رد الروایة الاخری فھذہ ھی التی یقع الترجیح بینھا وبین معارضھا فیقبل الراجح ویرد المرجوح انتھی(شرح نخبہ ص 37)۔ یعنی صحیح اور حسن حدیث کے راوی کی زیادتی جب تک دوسرے اوثق راوی کی روایت کے(جس نے یہ زیادتی ذکر نہیں کی ہے)بالکل منافی اور معارض نہ ہو۔مطلقاً مقبول ہے۔ہاں اگر ثقہ راوی کی زیادتی اوثق راوی کی روایت |