دوسری وجہ:ابوبکر بن نافع اپنے والد نافع سے مرسل بیان کرتے ہیں، اور یہ راوی صدوق ہے،اس کی روایت کی مزیدتفصیل آگے آئے گی۔ تیسری وجہ:عبید اللہ بن عمریہ ثقہ اورحافظ ہیں اور انہوں نے موصولا بیان کیا ہے۔احمد (۶؍۲۹۳،۳۱۵) ابوداؤد(۴۱۱۸) النسائی(۵۳۳۹)ابن ماجہ(۳۵۸۰) ابن ابی شیبہ (۱۲؍۵۱۹)طبرانی(۲۳؍ ۳۸۴) الشعب للبیقہی(۶۱۴۲) عبیداللہ بن عمر کی دیگررواۃ نے شیخ نافع میں مخالفت کی ہے۔ چنانچہ وہ یوں روایت کرتے ہیں:عن نافع عن سلیمان بن یسار عن ام سلمۃ۔لیکن یہ اختلاف مضر نہیں ہے، کیونکہ سند جہاں بھی گھومے پھرے وہ ثقہ راوی پر ہی گھومتی ہے،کیونکہ سلیمان بن یسار اور صفیہ بنت ابی عبید دونوں ثقہ ہیں۔اور یہ بھی احتمال ہے کہ نافع نے ان دونوں سے روایت کی ہو۔کیونکہ دونوں طریق نافع سے ثابت ہیں۔البتہ ترجیح کے پہلوکواختیارکریں تو اکثرکی روایت اولیٰ ہے۔ چوتھی وجہ:ابن ابی کثیر، یہ ثقہ اور مشہور راوی ہیں اور انہوں نے ام سلمۃ کے ذکر کے ساتھ اس حدیث کو موصولا بیان کیا ہے۔لیکن یہ سند منقطع ہے کہ انہوں نے ام سلمۃ اور نافع کے درمیان واسطے کو حذف کردیا ہے۔النسائی(۵۳۳۷)بطریق نافع عن ام سلمۃ ،البتہ اکثر کی روایت اولیٰ ہے ،اورانہوں نے زیادہ بیان کیا ہےالبتہ ن کی زیادت مقبول ہے کیونکہ اس زیادت پریہ سب مجتمع ہیں۔ پانچویں وجہ:محمد بن عجلان،یہ صدوق ہے،البتہ اس کے اوہام بھی ہیں،اس نے نافع عن عبداللہ بن عمر أن ام سلمۃ ...کے طریق سے روایت کیا ہے۔ابن عبدالبر نے التمہید(۲۴؍۱۴۸)میں ابن لہیہ کے طریق سے اس سند کوبیان کیا ہےلیکن یہ خطاہے جیسا کہ خود ابن عبدالبرنے اس خطاکی طرف نشاندہی کی ہے۔کیونکہ محمد بن عجلان سے روایت کرنے والا ابن لہیہ ہے اور وہ قابل حجت نہیں، اور یہ کہ یہ سند گزشتہ تمام روایات کے مخالف ہے،اور یہ کہ دیگر رواۃ نے ابن لہیہ کی اس سند میں مخالفت کی ہےاور وہ اکثر ہونے اور زیادتِ ضبط کی بنیاد پر اس پر متقدم ہیں۔ تنبیہات:(۱) پیچھے گزرچکاہے کہ ابوبکر بن نافع نے اس حدیث کو عن نافع عن صفیہ مرسلا بیان کیا۔ |
Book Name | عورت کا لباس |
Writer | الشیخ علی بن عبداللہ النمی حفظہ اللہ |
Publisher | مکتبہ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | مولانا عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | |
Number of Pages | 176 |
Introduction | انسانی معاشرت میں لباس کی بڑی اہمیت ہے ۔ اسی سے کسی قوم یا کسی مذہب کے ماننے والوں کا تشخص قائم ہوتا ہے اور برقرار رہتاہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ ہم مسلمان مرد و عورت کے مابین فرق کو سمجھتے ہوئے ان کے درمیان لباس کے فرق اور اس سے متعلقہ دیگر احکام کو بھی پیش نظر رکھیں عورت کا اسلامی لباس اس کے مسلمان ہونے کی علامت ہے اسے کسی طور اس بنیادی تشخص کو ترک نہیں کرنا چاہئے بعض لوگ مرد و عورتکے لباس میں موجود تفریق کے خاتمے کے ذریعے اس بنیادی تشخص کو مٹانا چاہتے ہیں جوکہ سراسر باطل فکر ہے ، اسی باطل فکرکی تردید و بیخ کنی کے لئے مذکورہ کتاب انتہائی مؤثر اور جامع ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’الأدلۃ الصوارم علی ما یجب سترہ من المرأۃ عند النساء والمحارم‘‘ (یعنی:اس مسئلہ پر قاطع اور ٹھوس دلائل کہ عورت کیلئے،دیگر عورتوں یامحرم مردوں کی موجودگی میں اپنے جسم کو کس قدر ڈھانپنا ضروری ہے ) جوکہ شیخ علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کے ترجمہ کے فرائض الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے ادا کئے ہیں یہ کتاب اپنے باب اور موضوع میں انتہائی نفیس اور عظیم کتاب ہے، مؤلف نے یہ مسئلہ بہت عمدگی سے پیش فرمایا ہے اور کتاب وسنت کے دلائل کا انبار لگا دیا ،اور اس مسئلہ کو خوب آشکاراکردیا ہے ۔ |