Maktaba Wahhabi

52 - 67
(النجم 39 )(انسان کی اپنی محنت ہی کارگرہوگی)ہے، البتہ نصوص کی بنیادپرکچھ چیزیں اس سے مستثنی ہیں۔۔۔۔۔۔"۔ کچھ لوگ حج پرقیاس کرتےہوئے میت کی طرف سےقربانی کوجائزقرار دیتےہیں کیونکہ میت کی طرف سےحج کاثبوت ہےاورحج کےاندر ھَدي بھی ہے! لیکن یہ قیاس کئی وجہوں کی بناپردرست نہیں ہے، کیونکہ حج ایک مستقل عبادت ہےجس کےمستقل اورمتعین ارکان وفرائض ہیں جن میں احرام، تلبیہ، طواف،منی،مزدلفہ اورعرفات کےاحکام وعبادات، رمی جمار، سعی،حلق یاقصراورھدي وغیرہ ہیں، اوران میں سےکوئی بھی رکن سنت سےثبوت کےبغیرکسی اورکےلئےکرناجائزنہیں ہے، جیساکہ امام البانی کے قول میں گزرا۔ لہذاجن عبادتوں کاکرنانصوص سے ثابت ہےان کاکرناجائزہے، لیکن جن کا کرنا ثابت نہیں اسےکرنااوررواج دیناقطعادرست نہیں ہے، کیونکہ اس سےدین میں بدعات کی راہ کھلنےکاخطرہ پایاجاتاہے، اورایسابہت ساری عبادتوں کےاندرہم آئےدن ملاحظہ کرتے رہتےہیں اوراس وجہ سےبہت سارےمسائل بھی پیداہوتے رہتےہیں۔ اب قربانی کوہی لےلیجئے، جن لوگوں نےمُردےکی طرف سے قربانی کے جوازکافتوی دیاہے ان کےدرمیان یہ اختلاف پایاجاتاہےکہ میت کی طرف سےکی گئی قربانی کےجانورکاگوشت کاکیاحکم ہے؟ اسےاستعمال کیاجا سکتاہے، یاتمام کےتمام کوصدقہ کردیناچاہئے ؟ کسی نبی خاص طورسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سےقربانی کی جاسکتی ہےیانہیں ؟ اگرکرلی گئی تواس کے گوشت اورچمڑےکاکیاحکم ہوگا؟ یہ اوراس طرح کےبےشُمارمسائل پیداہوتےہیں جنکی کتاب وسنت اور آثارصحابہ میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
Flag Counter