Maktaba Wahhabi

47 - 90
اور محتاط ہو گئے۔ پورے دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں وضع حدیث کی جرأت و جسارت کسی نے نہ کی یہاں تک کہ باہمی اختلاف اور جنگ کے ہنگامی حالات میں بھی کسی صحابی رضی اللہ عنہم نے ایسی کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کی جس سے فریقِ مخالف کے مقابلے میں ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو اور وہ قولِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو۔ مگر یہ صورتِ حال کچھ زیادہ عرصہ تک برقرار نہ رہ سکی۔ اسلام سے تعلق جس قدر کمزور ہوتا گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے جس قدر دُوری ہوتی گئی، ہوا وہوس فتنہ و فساد زور پکڑتے گئے یہاں تک کہ ابھی ایک صدی بھی نہ گزری تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی روایتیں منسوب کی جانے لگیں۔ اس وقت اسلام ایک ایسے مرحلہ سے گزر رہا تھا جہاں اسے نئے حالات، نئے مسائل اور نئے ماحول کا سامنا تھا، اسلام قبول کرنے والوں اور مسلمانوں کے گھروں میںپیدا ہونے والوں کی تعلیم و تربیت کا وہ معیار نہ تھا جو عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یاعہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اوّل میں تھا ان میں بہت سے وہ منافقین بھی تھے جو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے مرعوب ہو کر یا کسی اور مادی فائدہ کے پیشِ نظر مسلمان ہو گئے تھے مگر ان کے دل جاہلیت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے اور بعض وہ لوگ تھے جو اسلامی معاشرہ کوسبوتاژ کرنے کے لئے دانستہ اسلامی معاشرہ میں داخل ہوئے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو وضع حدیث کاا رتکاب کرتے تھے۔ ان واضعین نے اپنے گھٹیا مفادات پر شانِ نبوت کو قربان کیا، عظمتِ دین اور تقدسِ اسلام کو متاثرکرناچاہا اور امتِ مسلمہ کو فتنہ و فساد میں مبتلا کر دیا پھر ایک دونہیں ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں حدیثیں گھڑیں جن کو بالآخر محدثین اور مزاج شناسانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے روایت و درایت کی چھلنی میں چھان کر الگ کیا۔ پیش آنے والی اس نئی صورتِ حال کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی ہو چکا تھا اور بصیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھانپ لیا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ حدیث کے پاک و صاف سرچشمہ کو آلودہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور موتیوں کے اس مقدس ڈھیر میں خزف ریزے ملائے جائیں گے چنانچہ بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: سيكون في آخر الزمان اناس من امتي يحدثونكم بما لم تسمعوا انتم ولا ابائكم فاياكم واياهم [1]
Flag Counter