Maktaba Wahhabi

64 - 90
صحابہ رضی اللہ عنہم کو جنت کی خوشخبر سنائی، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم کی خصوصیات کااعتراف فرمایا اور ان کو دعائیں دیں۔ یہ احادیث صحاح ستہ وغیرہ میں تفصیل سے موجود ہیں۔ شانِ نبوت میں غلو: وضع حدیث کاایک بڑا محرک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عقیدت و محبت میں افراط اور غلو تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت نہ صرف اوصافِ حمیدہ او رکمالاتِ ممکنہ کی حامل ہے بلکہ خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے دوسرے انبیاء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک گونہ فضیلت بھی حاصل ہے۔ اس بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے مسلمانوں کی والہانہ عقیدت اور محبت کا ہونا ایک فطری اور جذباتی امر ہے۔ بلکہ حدیث یہ جزو ایمان بھی ہے۔ ایک ایسا شخص جو پیروی رسول کا دعویٰ تو کرے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹوٹ کر نہ چاہے، اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر قربان ہونے کاجذبہ نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا يؤمن احدكم حتى اكون احب اليه من والده وولده والناس اجمعين[1] ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ اس کے لئے محبوب نہ ہو جاؤں‘‘۔ اس عقیدت اور محبت میں شدت کا ہونا بھی فطری امر ہے مگر ظاہر ہے کہ ہر وہ عقیدت اور محبت غیر متوازن اور بے مہار ہو جاتی ہے جو علم و آگہی سے خالی ہو پھر وہ مبنی برحق بھی نہیں رہتی جب تک کہ شعور و دانش سے وابستہ نہ ہو۔ محبت و عقیدتکا تقاضا یہ ہے کہ مقامِ نبوت، مزاجِ نبوت اور کارِنبوت سے پوری آگہی ہو اور یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کااصل مقام پہنچانتے ہوئے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت رکھی جائے۔ بعد کے ادوار میں کچھ مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اس احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا اور غلو و افراط میں مبتلا ہو گئے جس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا تھا۔ لا تطروني كما اطرت النصارى عيسى ابن مريم[2] ’’مجھے میرے مرتبہ سے نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھایا تھا‘‘۔
Flag Counter