Maktaba Wahhabi

76 - 90
نے بغیر تمیز کے جھوٹی سچی روایات کو رواج دیا، عام لوگوں نے ان کی صورت وسیرت اور ظاہری دین داری کو دیکھ کر ان کی روایت کردہ احادیث پر اعتماد کر لیا اورکسی قسم کے شک و شبہ اور نقد و تبصرہ کو مناسب نہ سمجھا۔ اس طرح ذخیرہ احادیث میں غیر معتبر روایات کا بڑا حصہ ان جاہلوں کے ذریعہ در آیا، چنانچہ محدثین نے ان کوحدیث کے معاملہ میں غیر محتاط قرار دے کر ان کی روایت کو ساقط الاعتبار بنا دیا۔ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں کہ میں ایک لاکھ دینار کی امانت کے لئے جس آدمی کو صحیح سمجھتا ہوں ایک حدیث کے لئے اسے امین نہیں سمجھتا[1]۔ربیعہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ہمارے بہت سے بھائی وہ ہیں جن کی دعاؤں کی برکت کے ہم امیدوار ہیں لیکن اگر وہ کسی معاملہ میں شہادت دیں توہم ان کو شہادت قبول نہ کریں[2]۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ ’’میں نے ان ستونوں کے نزدیک ستر راویوں کو پایا مگر ان سے حدیث نہیں لی اگرچہ ان کو بیت المال کاامین بنا دیا جاتا تو وہ امانتدار ثابت ہوتے مگر وہ اس عظیم کام کے اہل نہ تھے[3]۔اسی لئے امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: الواضعون اقسام اعظمهم ضررا قوم ينسبون الى الزهد وضعوه حسبة[4]’’واضعین حدیث کی مختلف قسمیں ہیں مگر ان میں سب سے بڑے نقصان پہنچانے والے وہ لوگ ہیں جن کو زاہد سمجھا جاتا ہے جوآخرت کی نیت سے حدیث وضع کرتے ہیں‘‘۔ تصوف کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے تو ایسی روایات اس کثرت سے ملتی ہیں کہ صحیح روایات ان میں گم ہو کر رہ جاتی ہیں، یہ حال صرف ان لوگوں کا نہیں ہے جن کی قرآن و حدیث سے واقفیت کم تھی اور زاہد و صوفی بننے کا شوق زیادہ تھا بلکہ وہ عام وفقیہ صوفیا بھی اس معاملہ میںانتہائی غیر محتاط ثابت ہوئے تھے جومزاج شناس شریعت سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ کا پایہ علم بہت اونچا ہے اور ان کی عظمت سے کسے انکار ہو سکتا ہے، ان کی
Flag Counter