Maktaba Wahhabi

85 - 90
نہیں بلکہ سلسلۃ الکذب ہے۔ اس روایت کا جھوٹ ہونا واضح ہے کیونکہ سورہ بقرہ ہجرت کی ابتدا میں نازل ہوئی اور سیدناعلی رضی اللہ عنہم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح ہجرت کے دوسرے سال ہوا۔ اس روایت کو ثعلبی ، واحدی، زمخشری اورنفسی وغیرہ نے اپنی تفاسیر میں بیان کیا ہے[1]۔ اعطوا عينكم حظها من العبادة النظر في المصحف والتفكر فيه والاعتبار عند عجائبه[2] ’’اپنی آنکھوں کو اس کی عبادت کا حصہ دو، اس طرح کہ تم قرآن کو دیکھو، اس میں غور کرو اور اس کے عجائبات سے عبرت حاصل کرو‘‘۔ کچھ اور اسباب: موضوع احادیث کی روایت اور اشاعت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بسا اوقات راوی کو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے کے اقوال میں تمیز نہیں رہتی تھی، حدیث دیگراں کو نادانی سے حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ لیاجاتا تھا۔ اس طرح نادانستہ موضوع احادیث کی روایت ہوتی تھی،زہاد اور صوفیاء و حکماء میں بہت سے کلام سای طرح حدیث کی حیثیت سے معروف ہوئے، شیخ نے کچھ فرمایا اور متوسلین نے اسے حدیث سمجھ کر چلتا کر دیا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ حدیث کی روایت کے دوران کوئی اورواقعہ رونما ہوتا، حدیث بیان کرنے والا جملہ معترضہ کے طور پر کچھ بیان کرتااور اسے سننے والا حدیث کے ساتھ جوڑ دیتا اور اعتماد کے ساتھ حدیث کی طرح اس کی بھی روایت کرتا۔ مثلاً ایک مرتبہ ثابت بن موسیٰ زاہد شریک کے پاس اس وقت وہ کسی کو حدیث بایں سند املاء کرا رہے تھے : "حدثنا الاعمش عن ابي سفيان عن ابي جابر قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم " اتنا کہہ کر شریک چپ ہو گئے تاکہ لکھنے والا لکھ لے پھر ان کی نظر ثابت پر پڑی تو برملا کہا "من كثرت صلاته بالليل حسن وجهه بالنهار "[3] ’’رات کو جو نماز زیادہ پڑھتا ہے دن کو اس کا چہرہ خوبصورت
Flag Counter