Maktaba Wahhabi

51 - 90
واضعین حدیث کا حکم: موضوع روایات کی طرح ان کو وضع کرنے والے دجالوں کے سلسلہ میںبھی علماء اورمحدثین نے سخت موقف اختیار کیا ہے۔ ان کے نزدیک حدیث وضع کرنے والا گویا اسی سلوک کا مستحق ہے جو سلوک مرتد اور مفسد کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ابو العباس سراج کہتے ہیں کہ میں محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا اوران کو ابن کرام کاایک مکتوب دیا جس میں چند احادیث کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، ان میں زہری، سالم اور سالم کے والد کی سند سے یہ روایت بھی تھی کہ: "الايمان لا يزيد ولا ينقص" ’’ایمان گھٹتا اور بڑھتا نہیں ہے‘‘۔ تو امام بخاری رحمہ اللہ نے خط کی پشت پر لکھا کہ : "من حدث بهذا استوجب به الضرب الشديد والحبس الطويل"[1] ’’جس نے یہ حدیث بیان کی ہے وہ سخت سزا اور طویل قید کا مستحق ہے‘‘۔ وضع حدیث کا مرتکب اکبر کبائر کا مرتکب گردانا گیا ہے[2] ۔ اور ابو محمد الجوینی نے اس کی تکفیر کی ہے[3]۔ اسی طرح ائمہ مالکیہ میں ناصر الدین ابن المنیر نے بھی اس کی تکفیر کی ہے[4]۔ علامہ ذہبی نے ابو داؤد کے حوالے سے لکھا ہے کہ یحییٰ بن معین نے سوید الانباری کے بارے میں کہا ہے وہ ’’حلال الدم‘‘ ہے[5]۔حاکم کہتے ہیں کہ سوید کی یہ روایت "من عشق وعف وكتم ومات مات شهيدا " ’’جس نے عشق کیا اور پاک دامن رہا اور اپنے عشق کو چھپایا اور اسی حالت میں مر گیا تو اس کی موت شہادت ہے‘‘۔ جب یحییٰ بن معین کو معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا کہ "لوكان لي فرس ورمح غزوت سويدا [6]" ’’اگر میرے پاس گھوڑا اور نیزہ ہوتا تو میں سوید سے جنگ کرتا‘‘۔ابن عتیبہ نے معلی کے بارے میں کہا کہ اگر وہ ابن نجیع سے فلاں موضوع روایت بیان کرتاہے تو اسکی گردن مار دینے کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ عبدالکریم بن ابی احوجا اور محمد بن مصلوب جیسے کذبوں کو قتل کی سزا دی گئی[7]۔ ایسے مجرموں کی گواہی مردود اوراس کی
Flag Counter