Maktaba Wahhabi

65 - 90
اس کے باوجود مسلمانوں کے بعض طبقوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں اس تنبیہ کا لحاظ نہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے مرتبہ سے بڑھایا، بلکہ بعض نے معاذ اللہ مقامِ الوہیت تک پہنچا دیا۔ اللہ نے جو قدر و منزلت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی تھی وہ گویا ناکافی سمجھ لی گئی اور لوگوں نے اپنی طرف سے غیر مشروع قسم کی چیزیں جوڑ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں عجیب وغریب اور محیر العقول قسم کے قصے بیان کئے گئے۔ اس غیر تربیت یافتہ جذبہ ٔ عقیدت نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر ماننے سے انکار کیا۔ اسی غلو آمیز محبت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نورِ مجسم قرار دیا اور اسی جذبۂ نیازی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی میں شریک بنادیا۔ کہنے والے نے یہاں تک کہہ دیا کہ: اللہ کے پلے میں وحدت کے سوا کیا ہے جو کچھ مجھے لینا ہے لے لوں گا محمدؐ سے اور اسی جذبۂ نا تراشیدہ نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں موضوع احادیث کو سندِ قبول و جواز بخشا۔ ولادت سے لے کر وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی بے سر پیر کی روایات گھڑی گئیں کہ ان کی مثال اہلِ ہنود ہی کے ہاں مل سکتی ہے۔ شانِ محمدی میں حدیث وضع کرنے والے ایک کذاب سے جب پوچھا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے "من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار" ـ اورتم اس وعید کو جانتے ہوئے حدیث وضع کرتے ہو تو اس نے جواب دیاکہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حدیث گھڑنے کی ممانعت کی گئی ہے اور میں تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں حدیث وضع کرتا ہوں[1]۔ بدیں عقل و دانش بباید گریست ۔ اس جذبہ کے تحت جو حدیثیں وضع کی گئیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ عام طور پر سیرت نگار حضرات بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدائش کے وقت گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نور نکلا جس نے مشرق و مغرب کو روشن کر دیا میں نے اس نور کے ذریعے شام کے محلات کو دیکھایہاں تک کہ بصرہ میں اونٹوں کو سر اٹھائے ہوئے دیکھا‘‘[2]۔
Flag Counter