Maktaba Wahhabi

66 - 90
اسی طرح یہ روایت کہ: ’’پیدائش رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے، آتشِ فارس بجھ گئی جو ایک ہزار سال سے نہ بجھی تھی، بحریہ طبریہ خشک ہو گیا [1] ‘‘۔ نیز یہ روایت کہ ’’جس وقت میں حاملہ ہوئی اس وقت سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت تک میں کسی قسم کی تکلیف میں مبتلا نہ ہوئی جس میں عام طور پر عورتیںمبتلا ہوتی ہیں[2]۔ مجھے بشارت دی گئی کہ خیر العالمین تمہارے پیٹ میں ہے پیدائش کے بعد اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنااور یہ تعویذ اس کے لگا دینا۔ جب میں بیدار ہوئی تو سرہانے ایک سونے کانوشتہ تھا جس میں لکھا تھا "اعيذ بالواحد من شر كل حاسد، وكل خلق رائد، من قائم و قاعد، عن السبيل عائد، على الفساد جاهد، من نافث او عاقد الخ [3] سیدہ آمنہ کی طرف منسوب یہ روایت بھی بے اصل ہے کہ: ’’اور جب میں دردِ زہ میں مبتلا ہوئی تو ستاروں کی طرف دیکھنے لگی، ایسامحسوس ہو رہاتھا کہ وہ لٹک رہے ہوں، پھر مجھے یوں لگا کہ وہ مجھ پر گر جائیں گے۔ جب (محمد کی) ولادت ہوئی تو اس سے نور نکلا جس سے پورا گھر منور ہو گیا اور میں نور ہی نور دیکھنے لگی‘‘۔[4] شفا بنت عمر سے بھی اسی طرح کی ایک روایت منسوب کی جاتی ہے کہ جب انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میں لیا تو ایک نور ظاہر ہوا جس کی روشنی میں انہوں نے شام کے محلات دیکھے اور یہ ندا آئی کہ اے شفا! تمہارے اوپر اللہ نے رحم کیا۔[5] پیدائش نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان میں روایت و درایت کے لحاظ سے متعدد کمزوریاں پائی جاتی ہیں اور انہی کمزوریوں کی بناء پر محدثین نے ان کو درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ مولانا محمد تقی امینی لکھتے ہیں : ’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت کوئی صحابی موجود نہ تھا جس کی روایت قابلِ قبول ہو، ایسی حالت میں یہ روایتیں عمومی شہرت کی بناء پر ہوں گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کی وضاحت فرمائی ہو گی، اگر ان واقعات کی شہرت اسی طرح ہوتی جیسی ا ن روایتوں سے ظاہر ہوتی ہے تو بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ رسالت میں جس قدر دشواریاں پیش آئیں
Flag Counter