Maktaba Wahhabi

69 - 90
کی بنا پر فقہی مسلکوں کا وجود ہوا۔ فقہائے کرام نے مصادر شریعت سے مسائل کا استنباط کرنے اور روز بروز پیش آنے والے معاملات میں قرآن و حدیث کی تعبیر وتفسیر اورعلت کی تعیین کرنے میں مختلف اصول و ضوابط کو اپنایا، ایک ہی مسئلہ میں ختلف ائمہ کی آراء سامنے آئیں مسائل کی تخریج میں زاویہ نگا اورتعیین علت وغیرہ کا اختلاف ہر امام کو الگ الگ مکاتب فکر کابانی بناتا چلا گیا۔ بعد میں یہ مکاتب فکر باہم ممیز ہی نہیں ہوئے بلکہ حریف بن گئے۔ صدرِ اسلام میں بلکہ دو صدیوں تک فقہ کی بنیاد پر کوئی مسلک وجود میں نہیں آیا جس کسی کو کوئی فتویٰ لیناہو یامسئلہ پوچھنا ہواوہ اپنے قریب کے کسی بھی فقیہ سے دریافت کر سکتا تھا[1]۔ مثلاً ایک ہی وقت میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، ابن عیینہ رحمہ اللہ ، ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ ، جعفر صادق رحمہ اللہ اور دیگر علماء مراجع کی حیثیت رکھتے تھے، بعد میں ہر فقیہ کے نام پر الگ حلقہ قائم ہو گیا۔ ہر استاذ کے تلامذہ اور متبعین اپنے مشرب سے وابستہ رہ کر اس کی نمائندگی کرنے لگے اور اسی وابستگی کو شریعتِ محمدی سے قریب تر تصور کرنے لگے۔ ان ائمہ نے مسائل کی تخریج میں کبھی موضوع احادیث سے ا ستدلال نہیں کیا۔ موضوع احادیث کو رواج دینا تو دُور کی بات تھی بلکہ صحیح اور بعض حالات میں احادیث حسن کو انسانی اعمال و وظائف میں قانون اور رواج میں جاری و ساری کر کے زندہ رکھنے کی کامیاب کوشش کی مگر ان کے بہت سے متبعین ایسے بھی تھے جن میں فکری بلندی، وسعت نظری اور وسیع المشربی پیدا نہ ہو سکی ان میں دوسرے مسلک، ان کے حامیوں اور متبعین کے سلسلے میں رشک و رقابت کا جذبہ پیدا ہوا۔ ہر کوئی اپنے امام کو افضل اور اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے لگا۔ اس جہالت نے بہت سی جہالتوں کا دروازہ کھولا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں نے اپنے امام اور مسلک کی حمایت میں حدیث وضع کرنی شروع کردی، یہ مذموم حرکت صرف اپنی حمایت تک محدود نہ رہی بلکہ دوسرے اماموں کی مذمت میں بھی حدیث وضع کی جانے لگی۔ اس جذبہ کے تحت جو حدیثیں وضع کی گئیں ان کا نمونہ ملاحظہ ہو: من قرأ خلف الامام ملى فوه نارا[2] جو امام کے پیچھے قرأت کرے اسکا منہ آگ سے بھر جائے گا۔
Flag Counter