Maktaba Wahhabi

239 - 250
جدید دور میں بہت سارے عربی زبان و ادب سے جاہل اور کورے ’’دانشور‘‘ ریٹائرڈ پروفیسر، فوجی افسران، صحافی اور دیگر ’’ارباب اجتہاد‘‘ نت نئی تفسیریں پیش کرتے رہتے ہیں، ان کی ’’انوکھی تاویلات‘‘ سامعہ نواز ہوتی رہتی ہیں۔ اعاذنا اللّٰه وهدانا وإياهم [1] دوسرا سبب: قرآن مجید کو اپنے نظریات کے تابع بنانا تفسیری بالرأی کے سلسلے میں دوسری سنگین گمراہی یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن میں پہلے سے کچھ افکار و نظریات طے کر لے اور پھر قرآن مجید کی آیات بینات کو اپنے طے شدہ افکار و نظریات کے تابع بنانے کی فکر کرے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اس گمراہ کن طرز تفسیر کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قوم اعتقدوا معاني، ثم أرادوا حمل ألفاظ القرآن عليها، وكان نظرهم إلى المعنى أسبق‘‘ [2] ’’کچھ لوگ چند مفاہیم اپنے ذہنوں میں راسخ کر لیتے ہیں اور پھر الفاظِ قرآن سے وہی مفاہیم کشید کرنا چاہتے ہیں، جبکہ اپنا مخصوص نظریہ ان کی نگاہوں میں پہلے سے موجود ہوتا ہے۔‘‘ قدیم و جدید دور میں اہل شرک و ضلال، اہل بدعت اور متجددین جو بھی من مانی تاویلات کرتے ہیں، ان کے پیچھے یہی محرّک کارفرما ہوتا ہے۔ تیسرا سبب: معاصر افکار و نظریات سے مرعوبیت تفسیرِ قرآنی میں خطا و انحراف کی تیسری بنیادی وجہ معاصر افکار و نظریات اور اپنے وقت کے مروجہ فلسفہ و سائنس سے مرعوبیت ہے۔ یہ بھی درحقیقت دوسرے سبب کا ایک حصہ ہے، جسے امام ابن تیمیہ نے اپنے خوبصورت الفاظ میں یوں بیان کیا ہے: ’’اعتقدوا رأيا ثم حملوا ألفاظ القرآن عليه‘‘ [3]
Flag Counter