Maktaba Wahhabi

79 - 250
(2) منہج تفسیر بالمأثور عصری تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا ایک اعتراض یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ تفسیر بالمأثور کا منہج آج کے ترقی یافتہ حالات کے شانہ بشانہ چلنے سے قاصر ہے۔ آج کی دنیا میں سائنسی و عمرانی علوم اپنے تمام شعبہ جات میں افکارونظریات سے تجربات و مشاہدات تک انتہاء درجہ ترقی حاصل کر چکے ہیں۔ صحابہ و تابعین کی بزرگی و تقدس اپنی جگہ مسلم، لیکن ترقی و ارتقاء کی اس بدلتی اور ہنگامہ خیز دنیا میں، آخر ہم ان کی انگلی پکڑ کر کہاں تک چل سکیں گے؟ فہم قرآن میں بالخصوص اور فہم دین میں بالعموم عہد سلف کی اتباع اور اس کا تسلسل بننے کی دعوت کا یہ قطعی مطلب نہیں ہے کہ اب ہر ’’نئی‘‘ بات اور ہر ’’نیا‘‘ کام کرنے پر پابندی لگ جائے گی اور یہ کہ اپنے عہد کے حوادث اور پیش آمدہ فقہی و سماجی مشکلات کا حل تلاش کرنے پر قدغن لگ جائے گی حتیٰ کہ اجتہاد کرنا شجر ممنوعہ اور اپنی رائے پیش کرنا جرم قرار پائے گی۔ اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ قرآن سمجھا جا چکا ہے اور اب اس کے فہم کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں۔ یہ خدشات تو خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل اور خلفائے راشدین کے طرز خلافت اور اسالیب و اجتہادات سے رفع ہو جاتے ہیں۔ خود صحابہ کرام نے ایک دوسرے سے اختلاف رائے کیا اور دلیل کی بنیاد پر اپنا مؤقف پیش کیا۔ خلافت اسلامیہ کی حد درجہ وسعت سے پیش آمدہ قضا یا حوادث کے متعلق کامیاب حل بھی پیش کیے۔ صحابہ کے فیض یافتگان تابعین نے انہی کے نہج پر چلتے ہوئے، انہی کے طے کردہ خطوط پر اپنے دور کے تقاضوں کو بکمال خوبی پورا کیا اور سلف کے فکروعمل کو زبردست تطبیق دی۔ اتباع تابعین نے تو سلف کے ورثے کو باقاعدہ مدون علوم کی شکل دے دی۔ لیکن یہ سب کچھ ایک سلسلہ تھا، ایک دائرہ تھا اور ایک بنیاد پر تھا ۔۔۔ نہ کہ ہر ذہین شخص کی اپنی ذہنی اپج اور ہر فصیح اللسان کی اپنی اختراع ۔۔۔ اس گراں قدر علمی و عملی کاوش کے باوصف اور تنوع و اختلاف کے باوجود، اصول و عقائد میں یکسانیت تھی، مصادر تفسیر کی بات ہو یا فہم دین کا مسئلہ، مناطع طے شدہ تھے ۔۔۔ قرآن، حدیث، آثار صحابہ، سلف کا تعامل اور بس۔
Flag Counter