Maktaba Wahhabi

345 - 702
حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا تھا کہ:میں ایسے معصوم نہیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معصوم تھے؛ یہ بات حق ہے ۔ [خلیفہ کی شرعی حیثیت]: [اعتراض]: معترض کا یہ کہنا کہ: اسکی امامت کیسے جائز ہوسکتی ہے جو سیدھی راہ پر چلنے کے لیے رعیت سے مدد طلب کرتا ہو۔‘‘ [جواب]: یہ کسی جاہل کا ہی کلام ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ حاکم رب نہیں ہوتا کہ وہ رعیت سے بے نیاز ہوجائے ۔ اور نہ ہی وہ رعایا کی طرف رسول ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور مخلوق کے مابین ایک واسطہ ہو۔ بلکہ رعایانیکی و تقویٰ کے ان کاموں میں خلیفہ کے ساتھ تعاون کرتی ہے جن میں دین یا دنیا کی مصلحت ہو۔ ان کا آپس میں باہم مدد کرنا بہت ضروری ہے۔جیسا کہ امیر قافلہ جو لوگوں کو لے کر راستے پر چلتا ہے۔اگروہ انہیں لیکر سیدھے راستے پر چلتارہے تو لوگ اس کے پیچھے چلتے رہتے ہیں ۔اور اگر وہ غلطی کر جائے تو لوگ اسے سمجھاتے اور خبردار کرتے ہیں ؛اور سیدھی راہ دیکھاتے ہیں ۔اور اگر راستہ میں انہیں کوئی چور یا ڈاکو پیش آجائیں تو وہ قافلے کو بچانے میں اس کی مدد کرتے ہیں ۔لیکن جب یہی امیر کارواں علم وقدرت اور رحمدلی میں کامل ہو تو لوگوں کے احوال کے اعتبار سے زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا ہے۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ امام صلوٰۃ اگر نماز کے ارکان ٹھیک ادا کرتا ہے تو مقتدی اس کی پیروی کرتے ہیں اور اگر وہ بھول جاتا ہے تو تسبیح کہہ کر اس کی راہنمائی کرکے اسے راہ راست پر لایا جاتا ہے۔ اس کی تیسری مثال حاجیوں کے مرشد و رہنما کی ہے ۔ جب تک وہ سیدھی راہ پرچلتا رہے تو لوگ اس کے پیچھے چلتے رہتے ہیں اور اگر وہ غلطی کرے تولوگ اس کی اصلاح کردیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ امام یا حاکم سے دین نہیں لیتے؛ بلکہ تمام ائمہ اور امت کے لوگ دین کتاب و سنت سے سیکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے وقت معاملہ کو کتاب و سنت پر پیش کرنے کا حکم دیا ہے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ [النساء۶۹] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں ، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اختلاف کے وقت اپنا معاملہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ پر لوٹا دیں ؛ ائمہ اور حکمرانوں کی طرف لوٹانے کا حکم نہیں دیا ۔ اس لیے کہ ان کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter