Maktaba Wahhabi

694 - 702
میں ] حاصل ہوگیا۔پس جو وسیلہ تم نے اپنے دعووں میں ذکر کیا تھا وہ سب باطل ٹھہرا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ پر وہ چیزیں واجب کردیں جو کہ اس پر واجب نہیں تھیں ۔اور ایسی چیزوں کی خبریں دینے لگے جن کا کوئی وجود واقع ہی نہیں ہوا تھا۔پس ان کے اس جھوٹ اور جہالت کی وجہ سے ان کے اقوال میں تناقض کا لازم آنا ناگزیر ہوگیا تھا۔ [تعین امام کا طریقہ ]: [آٹھواں جواب ]:ہم کہتے ہیں کہ : کسی امام کے بارے میں وجود نص سے فساد کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ نص کے متعدد طرق ہیں : ۱۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص کی خلافت کے بارے میں پیش گوئی فرمائیں اور اس کی تعریف کریں ۔ امت کو اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر یہ شخص مسند امارت پر فائز ہوا تو لوگوں کے حق میں مفید ثابت ہو گا ۔بلاشبہ اس سے نزاع اٹھ جاتا ہے ۔اگرچہ آپ یہ نہ بھی فرمائیں کہ فلاں شخص کو امام مقرر کرلو۔ ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی پیش گوئی فرمائی تھی۔ ۲۔ نص کا دوسرا طریق یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے امور کی پیش گوئی فرمائیں جو کسی شخص کی خلافت و امارت کی عمدگی کی دلیل ہوں جیسے آپ نے فارس[1] و روم کے فتح ہونے کی بشارت دی تھی۔[2] جو خلافت صدیقی و فاروقی میں پوری ہوئی ہیں ۔ ۳۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد میں آنے والے کو کسی شخص کے پاس جانے کا حکم دیں ، یہ حکم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ شخص خلیفہ ہو گا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی متعلق یہ واقعہ پیش آچکا ہے۔ ۴۔ چوتھا طریقہ یہ ہے کہ آپ خلافت کے بارے میں ایک عہد نامہ لکھنا چاہتے ہوں اور جب اس کی تکمیل نہ ہو سکے تو فرمائیں : ’’ اﷲتعالیٰ اور مومنین فلاں کے سوا کسی کو خلیفہ تسلیم نہیں کر سکتے۔‘‘[3] تو اس طرح کا واقعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق ہی پیش آیا تھا۔ ۵۔ پانچواں طریقہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد کسی شخص کی پیروی کا حکم صادر کریں اور وہ منصب خلافت پر فائز بھی ہو جائے ۔ ۶۔ چھٹا طریقہ یہ ہے کہ آپ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سنت کی پیروی کا حکم دیں اور ان کی مدت خلافت کی تعیین
Flag Counter