Maktaba Wahhabi

373 - 702
یہ ایک مستقل حجت ہے؛ جس کاتقاضا ہے کہ دادا کو بھائیوں پر ترجیح حاصل ہو۔ایسے ہی جو لوگ چچازاد بھائیوں کی مشارکت کے قائل ہیں ان کے اقوال میں ٹکراؤ اور تناقض پایا جاتا ہے۔ اور اس پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو وہ تمام لوگ جانتے ہیں جنہیں علم الفرائض سے شغف ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ دادا کے بارے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا قول صحیح ترین اقوال میں سے ہے۔ اور آپ کے اقوال ہمیشہ صحیح ہوا کرتے ہیں ۔ فصل:....حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول: سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو علی رضی اللہ عنہ سے کیا نسبت جو فرمایا کرتے تھے :’’ میرے مفقود (فوت) ہو جانے سے پہلے جو دریافت کرنا ہو کرلو۔ مجھ سے آسمان کے راستوں کے بارے میں پوچھئے کیوں کہ مجھے زمین کے راستوں سے ان کا زیادہ علم ہے۔ اَبو البَخْتری کا بیان ہے میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے منبر پر بیٹھے دیکھا۔ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ، تلوار اور عمامہ زیب تن کر رکھا تھا۔ انگلی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ اسی دوران آپ نے شکم مبارک سے کپڑا اٹھا کر فرمایا:’’ مجھے گم پانے سے پہلے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو ۔بیشک میرے ان دونوں پہلؤوں کے درمیان علم ِ غفیر ہے ۔ بیشک یہ علم کا خزانہ ہے۔اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی مجھے وحی الٰہی کے علاوہ کوئی جام نہیں پلایا۔اللہ کی قسم ! اگر میں تکیہ موڑ کر اس پر بیٹھ جاؤں تواہل تورات کو تورات مطابق فتوی دوں اور اہل انجیل کو ان کی انجیل کے مطابق فتوی دوں ؛ یہاں تک کہ اللہ کے حکم سے تورات اورانجیل بولنے لگ جائیں ؛ اوروہ زبان حال سے کہیں : علی نے سچ کہا ۔میں تمہیں اس کے مطابق فتوی دیتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں نازل کی۔اور تم اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کرتے ہو ؛ کیا تم عقل نہیں رکھتے۔‘‘ [انتہٰی کلام الرافضی] [جواب]: ہم کہتے ہیں : حضرت علی رضی اللہ عنہ کایہ فرمانا: ’’مجھ سے پوچھو۔‘‘ اس ارشاد کی وجہ یہ تھی کہ آپ اہل کوفہ سے مخاطب تھے ‘اور کوفہ والے جاہل تھے اور آپ انھیں دین کے مسائل و احکام سکھانا چاہتے تھے۔اس لیے کہ ان میں جہلاء کی اکثریت تھی ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ آپ کے منبر کے گرد اکابر صحابہ موجود رہتے تھے؛ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا تھا اورتعلیم پائی تھی۔ اور آپ کی رعیت امت بھر میں زیادہ صاحب علم اور دین دار تر تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مخاطب عوام تابعین میں سے تھے، بلکہ یوں کہیے کہ ان میں بہت سے بدترین تابعین میں سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کی مذمت بیان کرتے اوران پر بدعا کیا کرتے تھے۔جب کہ مکہ و مدینہ اور شام و بصرہ کے تابعین کوفہ والوں سے بدرجہا بہتر تھے۔ ٭ خلفاء اربعہ سے منقول فتاویٰ جمع کیے جا چکے ہیں ۔ ان میں سے حضرت ابوبکر و عمر کے فتاوٰی قرین صحت و صواب اور ان کے علم و فضل پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ عمر رضی اللہ عنہ کے فتاوٰی سے بھی صحیح تر ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ میں سے مخالف نص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قضایا کی نسبت تعداد میں کم ہیں ۔ آج تک کوئی ایسی نص
Flag Counter