Maktaba Wahhabi

482 - 702
ان دلائل کی بنا پر سقیفہ بنی ساعدہ کے دن قریش نے انصار کے خلاف حجت پیش کی تھی۔ تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ [سالم رضی اللہ عنہ کویا ] کسی غیر قریشی کو خلیفہ کیوں کہ مقرر کر سکتے تھے؟ البتہ یہ ممکن ہے کہ انھیں جزئی امامت و ولایت تفویض کرنا چاہتے ہوں یا اس ضمن میں ان سے مشورہ لینا چاہتے ہوں یا اس قسم کے دیگر امور جن کے لیے سالم موزوں تھے۔ اس لیے کہ سالم رضی اللہ عنہ بہترین صحابہ میں سے تھے۔اورجب مہاجرین ہجرت کرکے تشریف لائے تو آپ لوگوں کونماز پڑھایا کرتے تھے۔ استخلافِ عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ : [اعتراض ]:شیعہ مصنف کا یہ قول ہے کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فاضل و مفضول کو جمع کردیا تھا؛ حالانکہ حق یہ تھا کہ فاضل کو مفضول پر مقدم کیا جاتا۔‘‘ [جواب]: ہم کہتے ہیں کہ:[ یہ روافض کے نزدیک ہے]۔ اہل سنت ان چھ حضرات کو متقارب الصفات قرار دیتے ہیں ۔ ان میں سے کسی اور ایک کو بھی دوسرے پر ظاہری طور پر کوئی فضیلت حاصل نہ تھی۔جیسے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو باقی صحابہ پر تقدیم اور فضیلت حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ شوری میں کبھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے لی جاتی تھی اور کبھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اور کبھی عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی رائے۔ ان میں سے ہر ایک کی کوئی نہ کوئی ایسی فضیلت تھی جس میں کوئی دوسرا ان کا سہیم و شریک نہ تھا۔صحابہ شوریٰ میں متردد تھے۔ اگر شیعہ کہیں کہ علی رضی اللہ عنہ افضل تھے اورعثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگ مفضول تھے ۔ تو یہ قول مہاجرین و انصار کے اجماع کے خلاف ہے ۔ جیسا کہ کئی ایک ائمہ نے ایسے ہی کہا ہے ۔ان میں سے ایک ابو ایوب السختیانی بھی ہیں ۔[ توپھرہم یہ کہیں گے کہ پھر انصار و مہاجرین نے بالاتفاق مفضول کو خلیفہ کیوں بنادیا؟] بعض علماء کا قول ہے:’’ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان سے رضی اللہ عنہ افضل قرار دیتا ہے۔ وہ مہاجرین و انصار پر عیب لگاتا ہے۔‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ ہم عہد نبوی میں صحابہ کی درجہ بندی کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’ سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ ۔‘‘ [1] ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ:’’ تینوں کے بعد ہم دیگر صحابہ میں تفاوت و مراتب قائم نہیں کرتے تھے۔‘‘[2] یہ اس عقیدہ و ایمان کے متعلق اخبار ہیں جس پر لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی تھے ۔کہ وہ پہلے ابوبکر کو شمار کرتے تھے پھر عمر کو اور پھر عثمان کو ۔ رضی اللہ عنہم ۔۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہ خبریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا کرتی تھیں ؛مگر آپ اس پر نکیر نہیں فرمایا کرتے تھے ۔اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین یہ تفضیل نصوص سے ثابت
Flag Counter