Maktaba Wahhabi

625 - 702
[شورائے عمر رضی اللہ عنہ ]: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ آٹھواں اختلاف: شورٰی کے معاملہ واقع ہواہے۔ اس اختلاف کے بعد صحابہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جمع ہو گئے تھے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ جھوٹ ہے، جو شیعہ کی فطرت میں داخل ہو چکا ہے۔مؤرخین و محدثین کا اس واقعہ کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔اس لیے کہ خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا تھا۔لیکن یہ ہواتھا کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تین روز تک لوگوں سے مشورہ کرتے رہے تھے۔ مشورہ کے بعد آپ نے بتایا کہ لوگوں کی نگاہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔آپ نے گھروں کے پردہ نشین دوشیزاؤوں تک سے اس بارے میں مشورہ کیا تھا ۔ اگر کوئی شخص آپ کی بیعت میں اختلاف کرتا؛ یا اس کے دل میں کوئی نا پسندیدہ بات ہوتی تو تاریخ اسے ضرور نقل کرتی۔لیکن کسی بھی ایسی چیز کا نقل نہ کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی نے کچھ بھی اعتراض نہیں کیا۔ حالانکہ ایسے کاموں میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں ۔ جس چیز میں مشاورت سے کوئی بات طے کی جائے وہاں پر لوگ باتیں کرتے ہیں اور اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں ۔ لیکن کسی ایسی بات کے متعلق بغیر کسی دلیل کے دوٹوک طور پر کہنا ممکن نہیں ۔ ہمیں صحیح روایات کی روشنی میں یہ بات معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ولایت میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کسی گروہ نے یہ بات کہی کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کو ولایت تفویض کی جائے۔ اگر کسی نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو اس کا قول ہم تک پہنچ کر رہتا جیسے انصار کا یہ قول ہم تک پہنچ گیا کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک تم میں سے۔‘‘ ٭ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو لوگ اتنے باہمت بھی تھے ‘ اور ایسے اسباب بھی موجود تھے کہ اعتراض آگے نقل کیا جاتا۔جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلافت کے بارے میں بعض انصار کااختلاف نقل کیا گیا ہے ۔ تو اس سے پتہ چلا کہ اس قسم کے اعتراض کا دعوی کرنے والا جھوٹا اور بہتان تراش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کسی خلیفہ کی بیعت پر اس قدر اتفاق نہیں ہوا جیسا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر ہوا تھا۔‘‘ ٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں نے تین دن کی مشاورت کے بعد ولایت تفویض کی تھی۔اس پر ان تمام کا اتفاق و اتحاد تھا۔وہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت و الفت رکھنے والے تھے۔اللہ تعالیٰ کی رسی کو اجتماعیت کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غلبہ عطا کیا تھا۔ اور ان لوگوں کے ذریعہ اپنے اس دین کو غالب کیا جو دین دے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا تھا۔ کفار کے خلاف ان کی مدد کی؛اور ان کے ہاتھوں پر بلاد شام ؛ عراق اور خراسان کے کچھ علاقے فتح ہوئے ۔ ٭ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو بھی نہیں سمجھتے تھے۔جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کواس
Flag Counter