Maktaba Wahhabi

361 - 702
’’ میں اس جھنڈے کو کبھی بھی نہیں کھول سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا۔‘‘ اس لیے کہ بعض لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لشکر بھیجنے سے روکا تھا۔کیونکہ انہیں خوف محسوس ہورہا تھا کہ کہیں لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی وجہ سے اس لشکر میں طمع کرنے لگیں ۔‘‘مگر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔ اور اس لشکر کو روانہ ہونے کا حکم دیا۔جب لوگوں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے فوراً بعد بھی یہ لوگ جہاد کررہے ہیں ؛ [تو لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ گیا] اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس لشکر کی وجہ سے اس دین کی مدد فرمائی اور مؤمنین کے دلوں کوقوت و استقامت عطا کی۔ کافروں او رمنافقوں کو ذلیل کیا۔ یہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے کمال ایمان ؛ کمال معرفت ‘ تدبر ؛ اصابت رائے ؛ اور یقین کی علامت تھی۔ فصل:....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور منصب ِحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد مبارک میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کبھی کوئی خدمت تفویض نہیں کی تھی۔ البتہ عمرو بن العاص اور اسامہ رضی اللہ عنہم کو بعض کاموں پر مامور فرمایا تھا۔ جب سورۂ توبہ دے کر آپ کو مکہ روانہ کیا توتین دن بعد بحکم وحی آپ کو واپس بلا لیا۔پھر کوئی عاقل آپ کی امامت پر کیسے راضی ہوسکتا ہے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورت توبہ کی دس آیات لوگوں تک پہنچانے کے لیے آپ پر راضی نہیں ؟‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]: ہم کہتے ہیں : یہ جھوٹ کی کھلی ہوئی مثال ہے۔ مفسرین ‘ محدثین وفقہاء؛ سیرت نگاران اور مؤرخین سبھی جانتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحج مقرر کیا تھا؛جو آپ کی عظیم خصوصیت ہے۔ اسلام میں یہ پھلا حج ہے جو مدینہ طیبہ سے ادا کیا گیا۔اس سے پہلے اسلام میں حج نہیں تھاسوائے اس حج کے جو حضرت عتاب بن اسید بن العاص بن امیہ رضی اللہ عنہ کی امارت میں مکہ مکرمہ سے ادا کیا گیا۔اس لیے کہ مکہ سن آٹھ ہجری میں فتح ہوا ۔ پھر اس سال کا حج عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کی امارت میں ادا ہوا۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ پر اپنا عامل بنایا تھا۔ پھر سن نوہجری میں غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر فرمایا۔ اس حج میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے موسم حج میں آوازیں لگانے کا حکم دیاکہ : اس سال کے بعد کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہ کرے اور ننگے ہوکر بیت اللہ کا طواف نہ کیا جائے۔ اس امارت جیسی امارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے کو عطا نہیں فرمائی۔ پس آپ کو یہ امارت و ولایت ملنا آپ کی خصوصیت شمار ہوتی ہے ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج پر کسی کو ایسے امیر مقرر نہیں کیا جیسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا۔ ایسے ہی نمازوں کا امام مقرر کرنا بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی انفرادی خصوصیت ہے۔ اس حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے ماتحت تھے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جا کر ملے تو آپ نے دریافت فرمایا :کیا امیر ہو کر آئے
Flag Counter