اللہ تعالیٰ انہیں عذاب نہیں دیں گے]۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکینِ مکہ کو دنیوی عذاب سے بچانے والی دو رکاوٹوں کی خبر دی ہے:
ا: اُن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ مسعود
ب: اُن کا مغفرت کی دعا کرنا
تین صحابہ رضی اللہ عنہم کے اقوال:
آیت کی تفسیر میں بعض حضراتِ صحابہ نے یہ بات واضح فرمائی ہے۔ اسی سلسلے میں ذیل میں ان میں سے تین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے:
i: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
’’بلاشبہ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے مشرکین کہتے:
’’لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘۔
[میں آپ کے حضور حاضر ہوں، میں آپ کے حضور حاضر ہوں، میں آپ کے حضور حاضر ہوں۔ میں آپ کے حضور حاضر ہوں، آپ کا کوئی بھی شریک نہیں]۔
تو (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ’’قَدْ قَدْ‘‘۔
[بس، بس]
(یعنی انہی کلمات پر اکتفا کرو، اس کے بعد مزید کچھ نہ کہو)۔
تو وہ (مشرک لوگ) کہتے: ’’إِلَّا شَرِیْکَ ہُوَ لَکَ، تَمْلِکُہُ وَ مَا مَلَکَ‘‘۔
[مگر آپ کے لیے ایک شریک ہے، آپ اس کے مالک ہیں اور وہ مالک نہیں]۔
اور وہ کہتے: ’’غُفْرَانَکَ، غُفْرَانَکَ‘‘۔
|