Maktaba Wahhabi

236 - 505
’’بلاشبہ عظیم جزا عظیم آزمائش کے ساتھ ہے اور بلاشک جب اللہ تعالیٰ کسی قوم سے محبت فرماتے ہیں، تو انہیں آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں۔ پس جو شخص (آنے والی آزمائش پر) راضی ہوا، اُس کے لیے ہی (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو کوئی (اُس پر) ناراض ہوا، تو اُس ہی کے لیے ناراضی ہے۔‘‘ شرحِ حدیث: دو علماء کے اقوال: i: علامہ مبارکپوری لکھتے ہیں: (فَمَنْ رَضِیَ) [پس جو شخص راضی ہو گیا] یعنی جس چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آزمائش کی وہ اس پر راضی ہو گیا (فَلَہُ الرِّضٰی) یعنی اُس ہی کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے رضا اور بہت بڑا ثواب ہے۔ (وَ مَنْ سَخِطَ) [اور جو شخض ناراض ہوا] یعنی اُس نے اللہ تعالیٰ کی آزمائش کو ناپسند کیا، بے صبری کی اور اللہ تعالیٰ کی قضا سے راضی نہ ہوا (فَلَہُ السَّخَطُ) [تو اس ہی کے لیے ناراضی ہے] یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور (اس کے ساتھ) بہت دردناک عذاب ہے۔ (حدیث کا) مقصود ابتلا آنے کے بعد اس پر صبر کی ترغیب ہے، اسے (یعنی مصیبت کو) طلب کرنا نہیں، کیونکہ ایسا کرنا ممنوع ہے۔[1] ii: علامہ طیبی نے تحریر کیا ہے: (فَمَنْ رَضِيَ فَلَہُ الرِّضٰی): جملے میں [فَمَنْ رَضِيَ] (سو جو شخص راضی ہوا) شرط اور [فَلَہُ الرِّضٰی] [پس اس ہی کے لیے رضا ہے] جزا ہے۔ اس سے یہ (بات) سمجھ آتی ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے (بندے پر) راضی ہونے سے پیشتر بندے کا (اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنے والی ابتلا پر) راضی ہونا ہے اور یہ مُحال ہے، کہ بندہ اللہ
Flag Counter