Maktaba Wahhabi

237 - 505
تعالیٰ پر، اُن کے اُس پر راضی ہونے سے پہلے، راضی ہو جائے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ} [اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہوئے اور وہ اُن سے راضی ہوئے]۔ اور یہ (بھی) ناممکن ہے، کہ اللہ تعالیٰ تو راضی ہو جائے اور آخرت میں بندہ اُن پر راضی نہ ہو۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {یٰٓاَ یَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ارْجِعِیْ اِِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ۔ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ} [ترجمہ: اے مطمئن جان! اپنے رب تعالیٰ کی جانب لوٹ چلو، تو (اُن پر) راضی (اور ان کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ پس تو میرے بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا]۔ پس (اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ابتلا پر راضی ہونے والے کے لیے) اللہ تعالیٰ کی ازلی، ابدی، (مصیبت کے آنے سے) ہلے اور (اس کے) بعد رضا ہے۔[1] دو علماء کے بیانات: اس سلسلے میں دو علماء کے بیانات ذیل میں ملاحظہ فرمائیے: i: امام عز الدین عبدالسلام لکھتے ہیں: إِنَّ الْمَصَائِبَ تَنْزِلُ بِالْبَرِّ وَالْفَاجِرِ، فَمَنْ رَضِیَہَا فَلَہُ الرِّضَا، وَالرِّضَا أَفْضَلُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَمَا فِیْہَا لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی: {وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ أَکْبَرُ}[2] أَيْ مِنْ جَنَّاتٍ عَدْنٍ وَمَسَاکِنِہَا الطَّیِّبَۃِ۔[3] مصیبتیں نیک و بد (سب لوگوں) پر آتی ہیں، پس جو شخص اُن پر راضی ہو گیا، اُس
Flag Counter