Maktaba Wahhabi

356 - 608
’’ صدقات صرف فقیروں ، مسکینوں اور ان کے وصول کرنے والوں کیلئے ہیں ۔ اور ان کیلئے جن کی تالیفِ قلب مقصود ہو۔ اور گردنیں چھڑانے میں اور قرض داروں کیلئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کیلئے ۔ یہ فرض ہے اللہ کی طرف سے۔ ‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ زکاۃ لینے کے مستحق یہی آٹھ ہیں ، ان کو چھوڑ کر کسی اور مصرف پر زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی ۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ زکاۃ کی رقم ان آٹھوں پر خرچ کی جائے بلکہ ان میں سے جو زیادہ مناسب اور زیادہ ضرورتمند ہو اس پر اسے خرچ کردیا جائے۔ ( 1 ) و( 2 ) فقراء اور مساکین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ضرورتمند ہوں او رجن کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ جس سے وہ اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے اخراجات پورے کر سکیں ۔ انھیں زکاۃ کی رقم سے اتنا پیسہ دیا جائے کہ جو زیادہ سے زیادہ ایک سال تک ان کی ضروریات کیلئے کافی ہو۔ (3) ’’العاملین علیہا ‘‘سے مراد زکاۃ اکٹھی کرنے والے اور اسے مستحقین میں تقسیم کرنے والے لوگ ہیں ۔ انھیں زکاۃ کی رقم سے ان کے کام کے بقدر تنخواہ یا وظیفہ دیا جاسکتا ہے خواہ وہ مالدار کیوں نہ ہوں۔ ( 4 ) ’’المؤلفۃ قلوبہم ‘‘ سے مراد کمزور ایمان والے نو مسلم لوگ ہیں ، یا وہ لوگ جن کے مسلمان ہونے کی امید ہو ، یا وہ کفار جن کو مال دینے سے توقع ہو کہ وہ اپنے قبیلے یا علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے۔ (5) ’’ وفی الرقاب ‘‘ سے مراد ہے غلاموں کو ان کے آقاؤں سے چھڑا کر آزاد کر دینا۔ ( 6 ) مقروض جو قرض واپس کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے زکاۃ کی رقم دی جاسکتی ہے بشرطیکہ اس نے قرضہ جائز مقصد کیلئے لیا ہو ۔ اسی طرح وہ لوگ جن پر چٹی پڑ جائے یا ان کا کاروبار شدید خسارے کا شکار ہو جائے تو انھیں بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔ ( 7 ) ’’ فی سبیل اللّٰه ‘‘ سے مراد جہاد اور دیگر تمام دینی مقاصد ہیں جو اللہ کی رضا کے موجب بنتے ہیں ، مثلا دینی مدارس میں زیرِ تعلیم طلبہ میں زکاۃ کی رقم خرچ کی جا سکتی ہے ۔ (8) وہ مسافر جس کا سفر جائز مقصد کیلئے ہو اور اس کا زادِ راہ دورانِ سفر ختم ہو جائے اور وہ سفری ضروریات کو پورا کرنے کیلئے پیسے کا محتاج ہو تواسے بھی بقدر ضرورت زکاۃ دی جا سکتی ہے ۔ تنبیہ( 1 ): یہ مستحقین ِ زکاۃ اگر اپنے قریبی رشتہ داروں میں مل جائیں تو انھیں زکاۃ دینے سے دوگنا اجر ملتا ہے ۔
Flag Counter