Maktaba Wahhabi

58 - 127
کوشش کی ہے جس سے روایت کا نہیں خود ان کا اپنا ضعف بلکہ کذب ثابت ہو گیا ہے۔ حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم فوت ہوئے تو ان کی بیوی صاحبہ نے قبر پر سال بھر خیمہ لگائے رکھا ۔ آخر اٹھ کر جانے لگیں تو لوگوں نے ایک آواز سنی کہ: أَلاَ هَلْ وَجَدُوا مَا فَقَدُوا، فَأَجَابَهُ الآخَرُ: بَلْ يَئِسُوا فَانْقَلَبُوا (بخاري ص 177) ـ ’’جو کھویا تھا کیا انہوں نے اسے پا لیا؟ ایک دوسری غیبی آواز نے جواب دیا کہ ’’بلکہ مایوس ہو کر لوٹ گئے۔‘‘ یہ آواز دینے والا کون تھا؟ اور کیا حرّہ کے موقع پر قبرِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے جانے والے ہمہمہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا؟ (دارمی) بلکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا جانے لگا تو بروایت اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیہقی میں ہے: ثم كلمهم مكلم من ناحية البيت لا يدرون من هو اغسلوا النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم وعليه ثيابه ـ ’’گھر کے ایک کونے سے غیبی آواز آئی کہ کپڑوں سمیت غسل دو۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ فرشتوں کی آوازیں ہو سکتی ہیں اور اس میں کوئی خطرہ والی بات نہیں۔ کسی حدیث کی صحت یا ضعف الگ مسئلہ ہے۔ عثمانی صاحب فقط اس لئے لٹھ لے کر حدیثوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ وہ بقول ان کے مشرکانہ ہوتی ہیں۔ ان تمام حوالہ جات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بات کو سمجھنے کی
Flag Counter