ہیں۔ اگر وہ سوجائیں، تو مغلوب و مقہور ہوں گے، کیونکہ نیند سونے والے پر غالب و قاہر ہوتی ہے۔ اگر وہ اونگھیں، تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے، ریزہ ریزہ ہوجائیں، کیونکہ وہ سب (چیزیں) ان کی تدبیر و قدرت سے قائم ہیں۔ نیند نظم و نسق چلانے والے کو تدبیر سے مشغول کردیتی ہے اور اونگھ نظام چلانے والے کے لیے انتظام و انصرام کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔‘‘
ب: [اونگھ] کی نفی کے بعد [نیند] کی نفی کی حکمت
بعض مفسرین نے اللہ تعالیٰ پر [اونگھ کے آنے کی نفی] کے بعد ان پر [نیند طاری ہونے کی نفی] ذکر کرنے کی حکمت کے بارے میں سوال اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ رازی لکھتے ہیں:
اگر (یہ) کہا جائے:
’’جب اونگھ نیند کے لیے مقدمہ (یعنی پیش رو) کی حیثیت رکھتی ہے، تو (لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ) [انہیں اونگھ نہیں آتی] کہنا، اس بات پر دلالت کرتا ہے، کہ [انہیں نیند بطریقِ اولیٰ نہیں آتی]، تو پھر اس طرح نیند کے ذکر میں (بلافائدہ) تکرار ہے۔‘‘[1]
تین مفسرین کے بیانات:
۱: علامہ رازی نے اس کا جواب دیتے ہوئے خود ہی تحریر کیا ہے:
’’تَقْدِیْرُ الْآیۃِ: لَا تَأْخُذُہُ السِّنَۃُ فَضْلًا عَنْ أَنْ یَّأْخُذَہُ النَّوْمُ۔[2]
’’آیت کا مقصود یہ ہے، کہ ان پر [نیند] کا طاری ہونا، تو دور کی بات، انہیں تو [اونگھ] بھی نہیں آتی۔‘‘
|