ہوتا، مگر جس چیز کی اللہ عزوجل اسے خبر دے دیں اور بتلادیں۔
یہ بھی احتمال ہے، کہ مراد یہ ہو، کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارے میں کسی بھی چیز کے علم کے بارے میں اطلاع نہیں پاتے، مگر جس چیز کے بارے میں وہ انہیں آگاہ فرمائیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ: {وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا}[اور لوگوں کا علم ان کا احاطہ نہیں کرسکتا]‘‘۔
(بِشَيْئٍ) ہٰذِہٖ نَکِرَۃٌ جَآئَ تْ فِيْ سِیَاقِ النَّفْيِ، فَہِیَ تَدُلُّ عَلَی الْعُمُوْمِ۔
(مِنْ) ہُنَا تَبْعِیْضِیَّۃٌ (مِنْ عِلْمِہٖ) یَعْنِيْ مِنْم بَعْضِ عِلْمِہٖ۔ ہٰذَا فِیْہِ تَأْکِیْدٌ آخَرُ۔[1]
[(بِشَيْئٍ) یہ نفی کے بعد (اسم) نکرہ ہے، اس لیے عموم پر دلالت کرتا ہے۔
(مِنْ) یہاں تبعیضیہ ہے (مِنْ عِلْمِہٖ) یعنی ان کے بعض علم سے۔ یہ ایک اور تاکید ہے]
اسی طرح جملے کے معانی قریباً یہ ہوں گے:
[وہ اللہ تعالیٰ کے علم کے کسی حصے کے بارے میں بھی، کسی بھی چیز کا احاطہ نہیں کرتے)۔ وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ۔
ج: مخلوق کے علم کا کامل نہ ہونا:
اسلام کی طرف اپنی نسبت کرنے والے بعض لوگ سمجھتے ہیں، کہ حضراتِ انبیاءعلیہم السلام ، بلکہ بعض صالحین بھی، علم غیب رکھتے ہیں اور انہیں زمانۂ ماضی، حال اور مستقبل کی ہر
|