Maktaba Wahhabi

21 - 495
لے کر آتے ہو ،بعض اوقات کو ئی شخص اپنے زور بیان سے غا لب آجا تا ہے اور میں اس کے دلا ئل سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں لیکن در حقیقت وہ اس فیصلہ کا حقدار نہیں ہو تا تو ایسے حا لا ت میں اگر میں نے اس کی چرب زبا نی کے پیش نظر اس کے بھائی کا حق اسے دے دیا ہو تو اسے چا ہیے کہ وہ اسے قبو ل نہ کر ے کیو نکہ میں اسے آگ کا ٹکڑا دے رہا ہو ں ۔"(صحیح مسلم :ج 4 ص 12) اس حدیث کے پیش نظر اگر کو ئی غلط بیا نی سے فتو یٰ حا صل کر لیتا ہے تو اس فتویٰ سے وہ چیز اس کے لئے حلال یا جا ئز نہیں ہو سکے گی بلکہ ایسے حالات میں انسان کا دل بھی اس پر مطمئن نہیں ہو تا جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :ایسے حا لا ت میں خود انسا ن اپنے دل سے فتویٰ طلب کر ے اگر چہ مفتی اس کے حق میں فتویٰ دے دے ۔(صحیح الجا مع الصغیر :حدیث نمبر 947) (2)خلو ص نیت سا ئل کا مقصد اپنے مسئلہ کا شرعی حل معلوم کر نا اور دین کے با ر ے میں استفادہ کر نا ہو، سوالات کے ذریعے مفتی کا امتحا ن لینا قطعاً مقصود نہیں ہونا چا ہیے اور نہ ہی یہ مطلب ہو کہ بلا مقصد ایسے مسا ئل کو اچھا لا جا ئے جن سے فتنہ نزاع پھیلنے کا خدشہ ہو کیو نکہ مجمع عا م میں کسی کو پر یشا ن کرنا یا فتنہ کو ہوا دینا دو نو ں نا جا ئز ہیں۔یعنی جس طرح مفتی کے لئے کتمان حق جا ئز نہیں اسی طرح اظہا ر حق جو فتنہ و فسا د کا پیش خیمہ ہو وہ بھی درست نہیں ، نیز فتویٰ پو چھنے والے کے لئے فتنہ پیدا کر نے کی غرض سے فتو یٰ لینا جا ئز نہیں ہے، چنا نچہ علماءنے لکھا ہے : کہ اگر فتوی سے فتنہ فسا د کا ڈر ہو یا فتو یٰ پو چھنے والا فتو یٰ پو چھ کر فتنہ کھڑا کر نا چا ہتا ہو یااس کا کو ئی مذموم مقصد ہو تو مفتی کو مصلحت کی بنا پر فتو یٰ نہیں دینا چاہیے ۔ (الفتا وی الشر عیہ :ص۔۔) (3)مرضی کا فتویٰ :سا ئل کے لئے ضرو ر ی ہے کہ وہ مفتی سے اپنی مر ضی کے مطا بق فتویٰ لینے کی کو شش نہ کر ے اور نہ ہی اس پر اس سلسلہ میں کوئی د با ؤ ڈا لا جائے، اسے کسی صورت میں مجبو ر نہ کیا جا ئے کہ اگر آپ فلا ں چیز کے جواز کا فتو یٰ دے سکتے ہو تو لکھ دو بصورت دیگر رہنے دو اور نہ ہی اپنی مر ضی کا فتویٰ حا صل کر نے کے لئے مختلف اہل علم کے پا س جا ئے کہ کسی طرح سو د حلال ہو جا ئے یا کو ئی مفتی مر دوں کے لئے سونا یا ریشم حلال کر دے، سا ئل کو چا ہیے کہ وہ ایسی خرا فا ت سے اجتنا ب کر ے ۔(ادب الفتویٰ : ص 148،) (4)کتا ب و سنت کی با لا دستی :سا ئل کو چا ہیے کہ وہ کتا ب و سنت کے مطا بق فتو یٰ طلب کر ے ،یہ نہ کہے کہ میں فلا ں امام کا مقلد ہو ں، لہذا مجھے اس کے مطا بق فتویٰ دیا جائے کیو نکہ ہم پرصرف کتا ب و سنت کی اتبا ع لا ز م ہے، قرآن کر یم میں اس اصول کو بیا ن کیا گیا ہے، ویسے بھی تمام ائمہ دین کا یہی ارشاد ہے : کہ اگر ہماری با ت کتا ب و سنت کے خلا ف ہو تو ہما را فتویٰ ترک کر کے کتا ب و سنت کا تمسک کیا جا ئے ۔ (5)فرضی مسا ئل: سوال پو چھتے وقت فرضی مسا ئل اور با ل کی کھا ل اتا ر نے سے گریز کیا جا ئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرا می ہے : بلاشبہ اللہ تعا لیٰ نے تین چیز یں تمہا رے لئے نا پسند کی ہیں قیل و قا ل ،اضا عت ما ل اور سوال درسوال ۔(صحیح بخا ری مع الفتح :ج 5 ،ص 68) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنے شا گر د حضرت عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے فر ما یا کر تے تھے : کہ جو شخص آپ سے بلا مقصد سوال کر ے اسے ہر گز جوا ب نہ دیا جا ئے ۔" (اعلام المو قعین :ج 4 ،ص،22) (6)علمائے حق کی تلا ش : فتو یٰ پو چھنے والے کو چا ہیے کہ وہ کتا ب و سنت کے ما ہر ین اور با عمل علما ئے کر ا م کی طرف رجو ع کر ے اور قا بل اعتما د ثقہ اہل علم سے فتویٰ حاصل کر ے، یہ درست نہیں کہ مذہبی تعصب کی بنا پر وہ جید اور فاضل علما ئے حق کو نظر اندا ز کر کے
Flag Counter