Maktaba Wahhabi

406 - 495
دی جا تی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جا تا ۔(صحیح بخا ری :کتا ب الجمعہ ) اس حدیث سے معلو م ہو اکہ جمعہ کے دن ایک اذا ن دینے کا یہ طرز عمل حضرت عمر فا رو ق رضی اللہ عنہ کی خلا فت تک جا ری رہا۔ حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ کے دو ر خلا فت میں مدینہ کی آبا دی بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے دور دور تک مکا نا ت پھیل گئے تھے تو حضرت عثما ن رضی اللہ عنہ نے لو گو ں کی سہو لت کے پیش نظر زور اء نا می پہا ڑی پر ایک اور اذا ن دینے کا فیصلہ فر ما یا جسے صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے قبو ل کر لیا ،البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اذا ن کو خلا ف سنت کہا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ :3/140) پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دار الحکو مت کو فہ میں اسے ختم کر کے اذان نبو ی یکو ہی بر قرار رکھا ۔(تفسیر قر طبی :18/100) حا فظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح کے مطا بق نو یں صدی ہجری کے نصف تک مغر ب کے علا قہ میں جمعہ کے دن صرف ایک اذا ن دینے کا اہتما م تھا، امام شا فعی رحمۃ اللہ علیہ فر ما تے ہیں کہ جمعہ کی اذا ن کے متعلق عہد رسا لت ہی کے طرز عمل کو زیا دہ پسند کرتا ہو ں ۔(کتا ب الام :1/195) تفصیل با لا کے پیش نظر سنت نبو ی کے مطا بق جہا ں ایک اذا ن دینے کا عمل ہے، وہا ں اسے بر قرار رہنا چا ہیے، کسی خا ص مکتب فکر کے لو گو ں کو خو ش کرنے کے لیے اس طرز عمل کو بد لنا قطعاً مستحسن نہیں ہے ،البتہ جہاں دو اذا نیں ہو تی ہیں وہا ں دیکھا جا ئے اگر کسی قسم کے فتنہ و فسا د کا اندیشہ نہ ہو تو وہا ں ایک اذان پر اکتفا کر نا چا ہیے، اگر حا لا ت نا سا ز گار ہو ں تو دو نو ں اذا نو ں کو بر قرار رکھنے کی گنجا ئش مو جو د ہے، ایسا کرنا گنا ہ نہیں کیو ں کہ صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہم کی مو جو د گی میں خلیفہ را شد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس عمل کو جا ری فر ما یا تھا اور ان کی اکثریت نے اسے قبول کر لیا تھا، اس بنا پر ایسے معاملا ت کو با ہمی اختلا ف وجدا ل کا ذریعہ نہ بنا یا جا ئے۔ اب سوالات کے تر تیب وار جوا ب ملا حظہ فرما ئیں : (1)نما زیو ں کی تعداد میں اضا فہ کے پیش نظر سنت نبوی کو نظر اندا ز کر کے دو اذا نو ں کو جا ری کر نا درست نہیں ہے ،بلکہ نما زیو ں کے دلو ں میں سنت کی افادیت و اہمیت کو اجا گر کیا جا ئے ۔ (2)ایسے معا ملا ت کو سا منے رکھ کر نما ز یو ں کا آپس میں بو ل چا ل بند کر لینا درست نہیں ہے، بلکہ افہا م و تفہیم کے ذریعے محبت و یگا نگت کی فضا پیدا کی جائے ۔اس قسم کی نا را ضگی اللہ کے لیے نا را ضگی تصور نہیں ہو گی ۔ (3)مقا می خطیب نے غلطی کا ارتکا ب ضرورکیا ہے لیکن اسے تو ہین سنت کا نا م دے کر اس کے پیچھے نماز پڑھنا تر ک کر دینا دا نش مند ی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو بد گما نی سے محفو ظ رکھے اور انہیں اتفاق و محبت سے رہنے کی تو فیق دے۔ آمین ۔ سوال۔پسرور سے شفیق الرحمن اسلم خریداری نمبر188لکھتے ہیں اگر منبر مو جو د ہو تو کیا اس کے بغیر خطبہ دیا جا سکتا ہے ،ہما رے ہا ں سا لہا سال سے یہ طریقہ ہے کہ منبر کی مو جو د گی میں خطبہ نیچے کھڑے ہو کر دیا جا تا ہے، صرف دوسر ے خطبہ کے لیے چند منٹ منبر پر بیٹھا جا تا ہے۔ جواب۔مسجد میں اگر منبر مو جو د ہے تو خطبہ جمعۃ المبا رک اس پر کھڑے ہو کر دیا جا ئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی عمل مسنو ن ہے۔ اگر مسجد میں اس کا اہتمام نہیں تو سنت کے احیا کے پیش نظر اس کا انتظا م کرنا چا ہیے ۔لیکن صورت مسئو لہ میں یہ حر کت انتہا ئی
Flag Counter