Maktaba Wahhabi

422 - 495
کہ یہ راوی کذاب ہے۔(میزان الاعتدال:3/446) ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس کی عام مرویات غیر محفوظ ہوتی ہیں۔(الکامل :6/2275) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ روایت بایں الفاظ منقول ہے: ''اپنی عورتوں کو خط وکتابت کی تعلیم نہ دو، انہیں بالا خانوں میں مت رکھو، عورت کے لئے بہترین تفریح سوت کاتنا اور مرد کےلئے سیر وسیاحت ہے۔''(ضعفاء لابن حبان :3/78) اس سند میں ایک راوی جعفر بن نصر ہےجس کے متعلق امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ متہم بالکذب ہے۔(میزان الاعتدال :1/418) پھر انہوں نے اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی اس حدیث کا حوالہ بھی دیا ہے۔ علامہ ابن عدی نے لکھا ہے کہ جعفر بن نصر ثقہ راویوں کے نام سے باطل احادیث بیان کرتا تھا، پھر انہوں نے بطور مثال ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ (الکامل :1/575) مذکورہ تفصیل سے معلوم ہو اکہ عدم جواز کی جملہ روایات نا قابل اعتبار اور بے بنیاد ہیں۔لہذا ان کو بنیاد بنا کر تعلیم نسواں کو ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ۔کتب حدیث میں چند ایسی ا حادیث بھی ہیں جو عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کے متعلق بڑی وضاحت سے دلالت کرتی ہیں۔چنانچہ شفاء بنت عبدا للہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میرے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے فرمایا:''کہ تم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو مرض نملہ کی جھاڑ پھونک سکھاؤ ، جیسا تم نے اسے خط وکتابت کی تعلیم دی ہے۔''(مسند امام احمد:6/372 ابو داؤد، الطب 3887) نملہ ایک انتہائی تکلیف دہ قسم کا پھوڑا ہے۔مریض ایسا محسوس کرتا ہے اس پرچیونٹیاں رینگتی اور اسے کاٹتی ہیں۔ یہ حدیث عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کی واضح دلیل ہے۔اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک اثر سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ بنت طلحہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے زیر کفالت تھی۔لوگ مختلف ممالک سے ان کے پاس آیا کرتے تھے اور ہدیہ پیش کرتے کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں میری بہت قدر ومنزلت تھی۔تمام شہروں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام خطو ط میرے پاس آتے، میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہتی: خالہ جان! یہ خط اور ہدیہ فلاں شخص نے بھیجا ہے۔آپ مجھے فرماتیں:'' کہ بیٹی! انہیں جواب لکھو اور ہدیہ کے بدلے بھی کچھ نہ کچھ روانہ کرو اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہوتو میں دے دوں گی۔''چنانچہ وہ مجھے کچھ دے دیا کرتی تھیں۔(الادب المفرد :287 حدیث نمبر 1118) اس تفصیل سے واضح ہوا کہ عورتوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ چھوٹی بچیوں کو تعلیم وتربیت کی ذمہ داری ان کے سرپرستوں پر ہے کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق اس کا اہتمام کریں۔ البتہ بالغ خواتین کے لئے ضروری ہے کہ وہ خواتین یا محارم سے تعلیم حاصل کریں۔ پردہ میں رہتے ہوئے غیر محرم سے بھی تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔بہر حال عورتوں کو لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہیے۔(واللہ اعلم) سوال۔خانیوال سے ا طہر مشہدی لکھتے ہیں کہ آپ نے دیور سے پردہ کے متعلق وضاحت فرما کر ا یک دیرینہ ضرورت کو پورا کر
Flag Counter