اگربچہ خالص کافر ملک سے ملا ہے یا اس ملک میں مسلمانوں کی تعدادکم ہے تو ملک کا اعتبار کرتےہوئے بچہ کافر متصور ہوگا جبکہ اس کی پرورش اسے اٹھانے والے ہی کے ذمے ہوگی بشرطیکہ وہ شخص امین ہو کیونکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لقیط بچے کی پرورش کی ذمے داری ابوجمیلہ نامی شخص پر ڈالی۔جب معلوم ہوا کہ وہ نیک اور امین شخص ہے تو فرمایا:"تم ہی اس کے سرپرست ہو۔"اور اسے اٹھانے کی وجہ سے تم دوسروں کی نسبت پرورش کا حق زیادہ رکھتے ہو۔"[1]
(4)۔اگر بچے کے ساتھ مال بھی ملا ہوتو اس کو اٹھانے والا(سرپرست) وہی مال اس پر معروف طریقے سے خرچ کرے۔
(5)۔اگر بچے کو اٹھانے والاپرورش کرنے کے لائق نہیں،مثلاً:وہ فاسق یا کافر ومشرک ہے جبکہ لقیط بچہ مسلمان ہے توبچہ ایسے شخص کے حوالے نہ کیاجائے۔اسلام کسی کافر یا فاسق کوولی وسرپرست مقرر کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ان سے بچے کے دین کو خطرہ ہے۔
(6)۔اگر بچے کو اٹھانے والاخانہ بدوش ہے(جبکہ بچہ شہر سے ملاہے) تو اس خانہ بدوش پرپرورش کی ذمے داری نہ ڈالی جائے۔کیونکہ وہ مختلف جگہوں پر منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس میں بچے کے لیے مشکلات ہیں۔ایسے شخص سے بچہ لے کر کسی شہری کے حوالے کیا جائے کیونکہ خانہ بدوشی کی نسبت شہر کی زندگی بچے کے دین ودنیا کی بہتری کے اعتبار سے مناسب ترین ہے،نیز اس سے بچے کے خاندان اور ورثاء کی تلاش اور اس کے نسب کی معرفت میں بھی آسانی وسہولت ہے۔
(7)۔لقیط اگرمرجائے تو بیت المال اس کا وارث ہے۔اگراس پر ایسی جنایت کی جائے جس سے دیت لازم ہوتو اس کی دیت بیت المال میں جمع ہوگی بشرطیکہ اس کاکوئی وارث نہ ہواوراگر اس کی بیوی زندہ ہوتو اسے چوتھائی ترکہ ملے گا۔
اگر لقیط کوعمداً قتل کردیاگیا تو اس کی دیت بیت المال میں جمع ہونے کی وجہ سے تمام مسلمان اس کے وارث ہوں گے،البتہ حاکم اس کا ولی ووارث بن کر مسلمانوں کی نیابت کرے گا،لہذا اسے(حاکم کو) قصاص یا بیت المال کے لیے دیت میں سے کسی ایک کا اختیار ہے کیونکہ حدیث میں ہے:
"فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ من لاولي له"
"جس کا کوئی ولی نہیں،امام(حاکم)اس کاولی ہے۔"[2]
اگر اسے زخمی کردیاگیا تو اس کی بلوغت اور سمجھ بوجھ کی عمر تک انتظار کیا جائے گا تاکہ وہ چاہے تو قصاص لے
|