Maktaba Wahhabi

160 - 516
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی"ثمغ" (نامی) زمین سے متعلق وصیت کی تھی کہ وہ ان کی موت کے بعد صدقہ ہے۔[1]اس پرکسی نے اعتراض نہ کیا۔بنا بریں اس کا جواز اجماع صحابہ سے ثابت ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ موت سے مشروط وقف تہائی مال سے زائد نہ ہو کیونکہ یہ عمل وصیت کے حکم میں ہے۔ (5)۔وقف کے احکام میں سے یہ بھی ہے کہ واقف(وقف کرنے والے) کی شرط پر عمل کیا جائے بشرطیکہ وہ حرام کو حلال یاحلال کو حرام قرار نہ دے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا" "مسلمان باہم طے شدہ شرائط کی پاسداری کریں مگر ایسی شرط جو حلال کو حرام کردے یا حرام کو حلال کردے۔"[2] علاوہ ازیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی وقف میں شرط لگائی تھی۔ اگرجائز شرط کالحاظ ضروری نہ ہوتو شرط لگانے کا کوئی فائدہ ہی نہیں،لہذا اگرواقف خاص مقدارکی شرط لگائے یا کسی مستحق کو دوسرے سے زیادہ دینے کی شرط عائد کرے یا کسی مستحق کے بارے میں خاص وصف کا اعتبار کرتے ہوئے شرط لگائے،مثلاً:ایک شے طلباء پر وقف کرتے ہوئے شرط لگائے کہ جو صحیح البخاری پڑھنے والا طالب علم ہوگا یہ شے اس کے لیے وقف ہے یا یہ شے اس کے لیے وقف ہے جو ڈاڑھی نہ منڈوائے یا اس کے لیے وقف ہے جو اس شے کی نگرانی کرے وغیرہ تو اس قسم کی شرائط کی پاسداری ضروری ہے۔ الغرض اگر کوئی شرط کتاب وسنت کے مخالف نہ ہوتو اس کالحاظ واعتبار ضرور کیاجائے گا۔اگروقف کرنے میں کوئی شرط عائد نہ کی گئی تو اس کے استحقاق واستعمال میں امیر،غریب،مرد وعورت سب برابر ہیں۔ (6)۔اگر وقف شدہ چیز کاکوئی نگران مقرر نہ کیا گیا ہویا مقررتو کیاگیا لیکن وہ فوت ہوگیا تو موقوف علیہ شخص خود اس کی نگرانی کرے،بشرطیکہ وہ معین ہو۔اگر موقوف علیہ کوئی نوع،یعنی ایک قسم کی مختلف چیزیں ہوں،مثلاً:مساجد یا جن کو شمار کرنا ممکن نہ ہو،جیسے مساکین ،تب حاکم نگران ہوگا۔وہ خود حفاظت کرے یا اس کی حفاظت پر کسی کو اپنا نائب مقرر کردے۔
Flag Counter