Maktaba Wahhabi

189 - 516
"وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ " ’’ تمہاری بیویاں جو کچھ چھوڑ کر مریں اور ان کی اولاد نہ ہو تو آدھا (نصف) تمہارا ہے اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے چھوڑے ہوئے مال میں سے تمہارے لیے چوتھائی حصہ ہے۔ اس وصیت کی ادائیگی کے بعد جو وه کر گئی ہوں یا قرض کے بعد۔ اور جو (ترکہ) تم چھوڑ جاؤ اس میں ان کے لیے چوتھائی ہے۔۔۔۔۔ ‘‘ [1] محض عقد نکاح کے سبب خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے ترکہ کے وارث ہوں گے ۔ اسی طرح زوجین طلاق رجعی کی عدت میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے کیونکہ طلاق رجعی کی عدت میں زوجیت قائم رہتی ہے۔ واضح رہے کہ نکاح کی تعریف میں شرعی کی قید لگانے سے غیر شرعی نکاح خارج ہو گیا جو فاسد ہے اور اس سے وارثت بھی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا نکاح کالعدم ہے۔ (3)۔ولاء:شرعاً ایسی میراث ہے جو مالک کو اپنے آزاد کردہ غلام کی موت کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ فقہاء کی اصطلاح میں اسے"عصوبة سببية "کہا جاتا ہے۔ ولاء کے سبب آزاد کرنے والا اپنے آزاد کردہ کا وارث ہوتا ہے اس کے برعکس نہیں۔ اور اگر"معتق"یعنی آزاد کرنے والا زندہ نہ ہو تو اس کے عصبات بالنفس (بیٹے ،باپ ،بھائی اور چچا) آزاد کردہ کی ولاء(ترکہ) لیں گے، عصبہ بالغیر یا عصبہ مع الغیر وارث نہ ہوں گے۔ ولاء کے سبب وارث ہونے کی دلیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "الْوَلَاءُ لُحْمَةٌ كَلُحْمَةِ النَّسَبِ" ’’ولاء کا تعلق نسبی تعلق کی طرح ہے۔‘‘ [2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"’’ولاء صرف اسے ملتی ہے جو آزاد کرے۔‘‘ [3] جنس کے اعتبار سے ورثاء کی اقسام جنس کے اعتبار سے ورثاء دو طرح کے ہوتے ہیں: مرد اور عورت ۔ مرد ورثاء
Flag Counter