Maktaba Wahhabi

255 - 516
کو قبول کرے گی تو اس کے لیے اس عورت کے عادۃ کھلے رہنے والے اعضاء کا دیکھنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے خلوت نہ ہواور فتنے کا ڈر نہ ہو۔‘‘ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:"(ہدایات نبوی کے مطابق) میں اسے دیکھنے کے لیے چھپ کے بیٹھا کرتا تھا یہاں تک کہ میں نے اپنی مخطوبہ کے وہ اوصاف دیکھ لیے جن کی بنا پر مجھے اس سے نکاح کی رغبت پیدا ہو گئی تو میں نے اس سے شادی کر لی۔"[1] اس روایت سے یہ ثابت ہوا کہ مخطوبہ عورت سے خلوت میں ملاقات کرنا جائز نہیں، نیز وہ اس طرح دیکھے کہ عورت کو خبر تک نہ ہو۔ علاوہ ازیں عورت کا وہ جسمانی حصہ دیکھے جو عموماً ظاہر باہر ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ اجازت تب ہے جب غالب گمان ہو کہ وہ عورت اس کی دعوت کو قبول کرے گی۔ اگر عورت کو دیکھنا ممکن اور آسان نہ ہو تو یہ کام کسی باعتماد عورت سے لیا جاسکتا ہے جو اس کے سامنے صحیح صورت حال واضح کر دے، چنانچہ مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہا کو ایک عورت دیکھنے کے لیے بھیجا ۔ اگر کوئی شخص نکاح کرنے سے قبل کسی مرد یا عورت کے بارے میں کسی شخص سے تحقیق کرے یا کوئی رائے یا مشورہ لے تو اس شخص پر لازم ہے کہ وہ اس کی خوبی یا خامی بتا دے اور یہ غیبت شمار نہ ہوگی۔ جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے واضح الفاظ میں دعوت نکاح دینا حرام ہے، مثلا:کوئی کہے:"میں تجھ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔"اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ " "تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اشارتاً ان عورتوں سے نکاح کی بابت کہو۔"[2] اس آیت میں عدت گزارنے والی عورت کے ساتھ تعریض (اشارے کنائے) کی اجازت دی ہے۔ مثلاً: کوئی کہے:"میں تجھ جیسی عورت سے نکاح کی رغبت رکھتا ہوں۔"یا اسے کہے:"جب تم اپنی مستقبل کی زندگی کا فیصلہ کرو تو ہمیں یاد رکھنا۔" صراحتاً دعوت نکاح دینے میں یہ خطرہ ہے کہ عورت عدت پوری ہونے سے قبل ہی نکاح کے لالچ میں تکمیل کا اعلان کر کے نکاح کر لے گی۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا یہی نقطہ نظر ہے۔ شیخ تقی الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"عدت گزارنے والی عورت کو دوران عدت میں طلاق دینے والا صراحتاً یا اشارتاً پیغام نکاح دے سکتا ہےبشرطیکہ طلاق اس قسم کی ہو جس کے بعد عدت کے اندر بھی دوبارہ نکاح جائز ہو۔"[3]
Flag Counter