Maktaba Wahhabi

296 - 516
"تو اپنے خاوند (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نظر میں بے قدر نہیں ،اگر تو چاہے تو میں تیرے ہاں سات دن گزاروں ۔ اگر تیرے ہاں سات دن گزاروں گا تو باقی بیویوں کے ہاں بھی سات دن ہی بسر کروں گا۔"[1] عورت پر حرام ہے کہ وہ اپنے شوہر کی جائز امور میں نافرمانی کرے۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی میں نافرمانی اور معصیت کی علامات محسوس کیں ،مثلاً:وظیفہ زوجیت کے لیے اس کا قریب نہ آنا یا بوقت طلب اس کا بے رخی کا مظاہرہ کرنا تو ان حالات میں اولاً اسے پندونصائح کرے، خشیت الٰہی پیدا کرنے کی تلقین کرے، اس کی ذمے داریوں سے اسے آگاہ کرے۔شوہر کی مخالفت کرنے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں جو گناہ و سزا ہے اسے یاد دلائے۔ اگر پھر بھی باز نہ آئے تو تین دن تک اس کو بستر سے الگ کردے اور بول چال بند رکھے اگر پھر بھی اپنا رویہ نہ بدلے تو اسے تادیباً مار سکتا ہے لیکن چہرے پر نہ مارے اور باقی رہنے والی چوٹ یا زخم نہ لگائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ" "اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمھیں خوف ہو تو انھیں نصیحت کرو اور انھیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انھیں ہلکی سزا دو۔"[2] جب زوجین میں سے ہر ایک کا یہ دعوی ہو کہ فریق ثانی اس پر ظلم کر رہا ہے اور باہم صلح و اصلاح مشکل دکھائی دے تو حاکم وقت کو چاہیے کہ دونوں کے خاندانوں میں سے ایک ایک فیصلہ کرنے والا عادل شخص مقرر کرےکیونکہ اقارب کو باطنی حالات کا زیادہ علم ہوتا ہے اور وہ امانت داری اور میاں بیوی کی اصلاح میں زیادہ مناسب ہوتے ہیں۔ اور ان دونوں پر واجب ہے کہ وہ صلح کروانے کی نیت سے بھر پور جدو جہد کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلاَحًا يُوَفِّقِ اللّٰهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا" "اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مردوالوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو۔ اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرادے گا۔ یقیناً اللہ بہت علم والا ،خوب خبردار ہے۔"[3]
Flag Counter