Maktaba Wahhabi

350 - 516
ہے جو اس کے قرابت داروں پر عائد ہوتا ہے۔اور پرورش کنندہ کا یہ حق ہے کہ اپنے قریبی(بچے) کے معاملات کا اسی طرح خیال رکھے جس طرح وہ باقی ذمے داریاں نبھاتا ہے۔ (2)۔پرورش کرنا جن اقرباء پر لازم ہے ان کی ترتیب یوں ہے: 1۔بچےکی پرورش کرنے کی سب سے زیادہ حقدار اس کی ماں ہے۔ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ جب خاوند اور بیوی کے درمیان علیحدگی ہوجائے اور ان کی چھوٹی اولاد ہویا بچہ بچی بڑا ہولیکن کم عقل ہوتوان کی کفالت کی سب سے زیادہ حق دار بچے کی ماں ہے بشرطیکہ ماں میں بچے کی کفالت کی تمام شرائط موجود ہوں۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور اصحاب الرائے کا یہی قول ہے۔ہمارے علم کے مطابق اس رائے کی کسی نے مخالفت نہیں کی۔‘‘[1] اگر بچے کی ماں کسی اور شخص سے شادی کرلے تو ماں کاحق پرورش ختم ہوکرکسی دوسرے کی طرف منتقل ہوجائے گا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر ایک عورت نے کہا:اے اللہ کے رسول! یہ میرا بیٹا ہے،میں نے اپنے پیٹ میں اسے اٹھایا،یہ میرے سینے سے دودھ پیتارہا، اس نے میری گود میں پرورش پائی،اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اب اس بچے کو بھی مجھ سے چھیننا چاہتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أنْتِ أَحَقُّ بِهِ مَا لَمْ تَنْكِحي" "بچے کو لینے کی حقدار تو ہی ہے جب تک تو کسی دوسرے آدمی سے شادی نہیں کرتی۔"[2] اس روایت سے واضح ہواکہ بچے کی ماں پرورش کی زیادہ حقدار ہے،البتہ اگر وہ کسی دوسری جگہ شادی کرلے تو اس کا حق ساقط ہوجاتا ہے۔ بچے کی پرورش میں ماں کو دوسروں پر ترجیح دینے میں حکمت یہ ہے کہ وہ بچے پر زیادہ مہربان،اور رشتے میں قریب ترین ہے۔رشتے میں ماں کے ساتھ باپ بھی شریک ہے لیکن باپ کے سینے میں شفقت ماں کے برابر نہیں ہوتی اور وہ خود پرورش کر بھی نہیں سکتا۔لازماً وہ بچے کو اپنی بیوی ہی کے سپرد کرے گا،لہذا بچے کو اس کی ماں کے حوالے کرنا اس کی سوتیلی ماں کی نسبت زیادہ مناسب اور بہتر ہے ۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص سے کہا:" بچے کے لیے ماں کی خوشبو،اس کا بستر اور اس کی گودتجھ سے بہتر ہے حتیٰ کہ وہ جوان ہوجائے اور اپنے لیے
Flag Counter