Maktaba Wahhabi

496 - 516
2۔ مرد ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً" "وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جنھوں نے اپنے معاملات میں عورت کو حکمران بنا لیا۔"[1] 3۔ آزاد ہو، اس وصف کی وجہ یہ ہے کہ غلام اپنے آقا کے حقوق کی ادائیگی میں ہمہ وقت مشغول ہوتا ہے۔ 4۔ مسلمان ہو کیونکہ کسی شخص کی نیکی، دیانت و شرافت مسلم ہونے کے لیے اسلام میں داخل ہونا شرط ہے۔نیز اسلامی معاشرے میں کافر ماتحت رکھنا اور اسے مسلمانوں والی عزت نہ دینا مطلوب ہے۔ حکمرانی یا عہد قضا عزت واحترام کا سبب ہے۔ 5۔ عادل ہو، یعنی صالح شریف اور دیانت دار ہو۔ فاسق کو عہد ہ قضا دینا قطعاً جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا" "اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو۔"[2] جب فاسق کی خبر مقبول نہیں تو اس کا فیصلہ بطریق اولیٰ غیر مقبول ہوگا۔ 6۔ اس کی قوت سماعت قائم ہو کیونکہ بہرہ ہونے کی صورت میں فریقین کے بیانات نہیں سن سکے گا۔ 7۔ دیکھنے کی قوت رکھتا ہو کیونکہ نابینا شخص مدعی اور مدعا علیہ میں فرق نہ کر سکے گا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو قاضی بنایا جا سکتا ہے جیسے اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے کیونکہ اسے صرف جھگڑا کرنے والے کی ذات کو پہچاننے میں مشکل پیش آتی ہے اور یہاں اس کی حاجت نہیں بلکہ وہ تو بیان کردہ اوصاف کے مطابق فیصلہ کرتا ہے جیسے سیدنا داؤد علیہ السلام نے دو فرشتوں کے درمیان فیصلہ کیا تھا۔[3] 8۔ بولنے کی قوت رکھتا ہو کیونکہ گونگے شخص کے لیے بول کر فیصلہ دینا ناممکن ہے۔ باقی رہے اشارات تو تمام لوگ انھیں سمجھ نہیں پاتے۔ 9۔ قاضی ایسا شخص ہو جو اجتہاد کر سکتا ہو۔ اگرچہ وہ اپنے اس مذہب میں مجتہد ہو جس میں وہ ائمہ میں سے کسی امام کی تقلید کر رہا ہے تو ضروری ہے کہ مذہب میں راجح اور مرجوح قول کا علم رکھتا ہو۔ اس شق پر عہد قدیم ہی سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لوگوں کے احکام معطل ہو کر رہ جاتے ہیں۔
Flag Counter