Maktaba Wahhabi

76 - 516
حجر (تصرفات پر پابندی) کو مشروع قراردیا گیا ہے۔ حجر (حاء کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی" روکنا" ہیں ۔حرام شے کو"حجر" کہتے ہیں کیونکہ وہ ممنوع ہوتی ہے۔ارشاد ر بانی ہے: "وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا"’’اور وہ (فرشتے) کہیں گے (تم پر جنت) ممنوع ہے ،حرام کی گئی ہے۔‘‘[1] "حجر" عقل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ انسان کو برے اور ضرررساں کاموں سے روکتی ہے۔ فرمان الٰہی ہے: "هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِّذِي حِجْرٍ"’’یقیناً ان(چیزوں) میں عقل مند کے لیے معتبر قسم ہے۔‘‘ [2] "حجر" کے شرعی معنی ہیں:" کسی انسان کو( کم عمری، کم عقلی ، جنون یا افلاس کی وجہ سے) تصرفات مالی سے روک دینا۔" قرآن مجید میں حجر کی دلیل میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: "وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٥﴾ وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ " "بے وقوف لوگوں کو اپنا وہ مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزران کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایا ہے، البتہ انہیں اس مال سے کھلاؤ پلاؤ، پہناؤ، اوڑھاؤ اور انہیں معقولیت سے نرم بات کہو ۔اور یتیموں کو ان کے بالغ ہو جانے تک سدھارتے اور آزماتے رہو، پھر اگر ان میں تم ہوشیاری اور حسن تدبیر پاؤ تو انہیں ان کے مال سونپ دو "[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم پر ان کے قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے مالی تصرف کی پابندی لگا دی تھی جب وہ مقروض ہو گئے تھے۔[4] حجر کی اقسام حجر کی دوقسمیں ہیں:
Flag Counter