Maktaba Wahhabi

78 - 114
کرتے ہیں کہ یہاں تحریف ہوگئی ہے۔ علامہ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے مقدمہ میں اس حوالے سے تفریق نہیں کی لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حوالے سے باریک فرق کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ دراصل یہ جتنے اصول ہیں یک بارگی سارے اصول اپنی انتہا کو نہیں پہنچے بلکہ ان کی آہستہ آہستہ تنقیح و تحقیق ہوتی رہی ہے۔ پھر جاکے ان اصولوں کو متعارف کروایا گیا ہے۔ سوء حفظ کی دوسری صورت وہم : اسی طرح سوء حفظ کی ایک صورت وہ ہے جسے ہم وہم سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ اس وقت ہوتی ہے جب راوی مرسل کو متصل بیان کردے یا مرفوع کو موقوف بیان کردے ۔ تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے وہم ہوا ہے ،اس نے موقوف کو مرفوع بیان کردیا ہے۔ اس کا پتہ چلے گا اسانید کے دراسہ اور تقابل سے کہ اس نے کیسے بیان کیا ہے اور اس کے باقی شاگرد وںسےپتہ چلے گا کہ اس کے باقی شاگرد تو اس طرح بیان کرتے ہیں۔ سوء حفظ کی تیسری صورت غفلت : اسی طرح ایک صورت غفلت کی ہوتی ہے۔ مغفل راوی ( مغفل راوی کہتے ہیں جو اپنی صحیح اورسقیم روایات میں تمیز نہ کرسکتا ہو۔ ) اور پھر غفلت کی ایک آخری پوزیشن یہ ہوتی ہے کہ جب اس مغفل راوی کو لقمہ دیا جاتا ہے تو وہ لقمہ کو قبول کرلیتا ہے۔ جس طرح ایک غیر پختہ حافظ کو ایک اناڑی حافظ کوئی لقمہ دے وہ اس کو قبول کرلیتا ہے۔ لیکن پختہ حافظ قبول نہیں کرتا۔اس سے پتہ چل جائے گا کہ اس کو قرآن ازبر ہے۔ یہی معاملہ روایت کا ہے اور وہ راوی جو اس طرح کے لقمے کو قبول کرلیتے ہیں، اس کو اصطلاح میں کہتے ہیں یقبل التلقین تلقین کو قبول کرلیتا ہے۔ کبھی کبھی یہ تلقین اختبار کے لئے بھی کی جاتی ہے، جیسے یحی بن معین رحمہ اللہ ، امتحان لینے کے
Flag Counter