Maktaba Wahhabi

88 - 90
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے کتاب الموضوعات کے مقدمہ میں ان راویوں کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں جن کی مرویات میں جھوٹی، موضوع اور مقلوب روایات شامل ہیں: ۱۔وہ لوگ جن پر زہد و تقشف کا غلبہ ہوا اوروہ حدیث کے حفظ و تمیز سے غافل ہو گئے ان میں وہ لوگ بھی ہیں جن کی بیاض جل گئی یا ضائع ہو گئی اور وہ اپنے حافظہ کی مدد سے حدیث بیان کرنے لگے او راس میں ٹھوکر کھائی، کبھی مرسل کو مرفوع بنا دیا، کبھی موقوف کو مسند کر دیا، کبھی اسناد میں الٹ پھیر کر دی اور کبھی ایک حدیث کو دوسری حدیث میں شامل کر دیا۔ ۲۔ وہ لوگ جو نقل و ترقیم کی مدد سے محروم رہے، نتیجہ میں حدیث بیان کرنے میں غلطیاں زیادہ کیں اوراسی طرح ٹھوکر کھائی جس طرح پہلی قسم کے راویوں نے کھائی۔ ۳۔ وہ لوگ جواگرچہ خود ثقہ تھے لیکن آخری عمر میں ان کی عقل جواب دے گئی، نتیجہ میں روایات میں انہوں نے خلط ملط کر دیا۔ ۴۔ وہ لوگ جن پر غفلت طاری ہو گئی ان میں سے کچھ تو وہ ہیں کہ جوان سے بیان کر دیا جاتا وہ اسے بیان کر دیتے، کوئی حدیث وضع کر کے دیدیتا تویہ اسے بیان کر دیتے بغیر یہ جانے ہوئے کہ یہ حدیث بھی ہے یا نہیں اور حدیث بھی کس طرح کی ہے ا ور ان میں بعض وہ بھی ہیں جو ان لوگوں سے روایت کرتے جن سے ان کا سماع نہ ہوتا اور یہ سمجھتے کہ روایت کے لئے ملاقات ضروری نہیں صرف معاصرت کافی ہے۔ (جیسا کہ حدیث معنعن کے سلسلے میں محدثین کہتے ہیں: ۵۔ وہ لوگ جو جان بوجھ کر موضوع حدیث بیان کرتے، ان میں تین طرح کے لوگ ہیں۔ الف: جو کسی غلط روایت کو نادانی کے باعث درست سمجھ لیتے اور جب ان کو اس کی حقیقت معلوم ہو جاتی تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے اپنی غلط روایت کے صیح ہونے پر اصرار کرتے۔ ب: جو ضعفاء اور جھوٹے راویوں سے دانستہ روایت کر لیتے اور ان کے نام بدل دیتے تاکہ روایت قبول کر لی جائے۔ ج: جو دیدہ و دانستہ حدیث وضع کرتے، کبھی موضوع سند اور کبھی موضوع متن[1]
Flag Counter