اور پھر آپ نے اسے تیار کرایا اور دو ڈبوں میں بند کر کے اوپر سے چمڑے وغیرہ سے ڈھانپ کر آپ کے پاس مدینہ نبویہ بھیج دیا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اسے وصول کیا اور حلوہ کو چکھا، حلوہ آپ کو بہت پسند آیا۔ آپ نے لانے والوں سے پوچھا: کیا وہاں کے تمام مہاجرین اسے شکم سیر ہو کر کھاتے ہیں؟ عتبہ کے ایلچی نے نفی میں جواب دیا اور کہا: یہ صرف آپ کے لیے پکوایا گیا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے آذربائیجان میں عتبہ رضی اللہ عنہ کے پاس واپس لے جانے کا حکم دیا اور عتبہ کے نام خط لکھا: ’’اے عتبہ! تمہارا بھیجا ہوا تحفہ تمہاری اور تمہارے باپ کی کمائی نہیں ہے، تم اپنے دوران سفر جو کھاتے ہو اسی خوراک سے تمام مسلمانوں کو ان کے سفروں میں شکم سیر کرو، عیش پرستی، مشرکین کی پوشاک اور ریشمی لباس پہننے سے دور رہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس پہننے سے منع فرمایا ہے۔ [1] یہ واقعہ مختلف روایات سے ثابت ہے جو ہر ایک دوسرے کی موید ہیں۔ بہرحال عتبہ رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے بقیہ ایام خلافت تک اور عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی ایام خلافت میں آذربائیجان کے گورنر رہے۔ علاوہ ازیں عراق وفارس کے مختلف علاقوں میں عمر رضی اللہ عنہ کے متعدد گورنر تھے۔ بعض تو اپنی ریاست کے خودمختار گورنر تھے، جبکہ بعض کی ولایت عراق کی دونوں بڑی ریاستوں یعنی کوفہ اور بصرہ کے ماتحت تھی کیونکہ یہی دونوں ریاستیں بلاد عراق وفارس کی تنظیم وحکمرانی کا مرکز تھیں۔ اس بحث میں مذکورہ ریاستوں کے علاوہ اور بھی چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھی جہاں پر گورنر ہوا کرتے تھے، مثلاً موصل، حلوان اور کسکر وغیرہ۔[2] |
Book Name | سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد، محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ، خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ، پاکستان |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 823 |
Introduction |