Maktaba Wahhabi

104 - 131
بڑھ کر ظلم وہ یہ کرتا کہ جب دوپہر کی گرمی شباب پر ہوتی تو وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مکہ کے پتھریلے کنکروں پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔ وہ کہتا خدا کی قسم! تو اسی طرح پڑا رہے گا جب تک کہ تو مرجائے یا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ کفر کرے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی استقامتِ قلبی اور ثابت قدمی ملاحظہ کیجیے کہ وہ اس حالتِ زار میں بھی اَحد اَحد پکارتے۔ ایک روز جبکہ اُن پر یہی ستم ڈھایا جارہا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا۔ انھوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو دو سو اسی درہم کے عوض خرید کر آزاد کردیا۔[1] حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما بنو مخزوم کے غلام تھے۔ انھوں نے اور اُن کے محترم والدین نے اسلام قبول کیا تو اُن پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مشرکین جن میں ابو جہل پیش پیش تھا، سخت دھوپ میں اُنھیں تپتی ہوئی پتھریلی زمین پر لے جاتے اور اُس کی تپش کی سزا دیتے۔ ایک مرتبہ انھیں اسی طرح سزا دی جارہی تھی کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آلِ یاسر! صبر کرنا تمھارا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘ آخر کار یاسر ظلم کی تاب نہ لا کر وفات پاگئے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا جوحضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ تھیں ابوجہل نے اُن کے برچھا مارا تو وہ دم توڑ گئیں۔[2] حضرت خباب بن اَرت رضی اللہ عنہ قبیلۂ خزاعہ کی ایک عورت ام اَنمار کے غلام تھے۔ مشرکین اُنھیں طرح طرح کی ایذائیں دیتے۔ اُن کے سر کے بال نوچتے اور سختی سے اُن کی گردن مروڑتے تھے۔ ظلم و ستم کی انتہا کرتے ہوئے اُنھیں دہکتے انگاروں پر لٹا کر اوپر پتھر رکھ دیا جاتا تاکہ وہ اٹھ نہ سکیں۔[3]
Flag Counter