Maktaba Wahhabi

85 - 131
اے محمد! آپ کی قوم نے آپ سے جو کچھ کہا اُسے اللہ تعالیٰ نے سن لیا۔ میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں۔ آپ کے رب تعالیٰ نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے تا کہ آپ مجھے جو چاہیں حکم فرمائیں۔ اگر آپ کہیں تو میں اِنھیں (اہل مکہ وطائف کو) اِن دو پہاڑوں (جبل ابو قبیس اور جبل قعیقان) میں رکھ کر پیس ڈالوں۔ لیکن نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مَلَکُ الجبال سے فرمایا: ’’(نہیں۔) بلکہ میں اُمید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِن میں سے ایسے افراد پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں گے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔‘‘ [1] چنانچہ آپ کی اُمید بر آئی اور آپ کی پیش گوئی پوری ہوئی۔ سردارِ قریش حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ تو خیر خود بھی اسلام لے آئے تھے۔ دیگر سردارانِ قریش جنھیں قبولِ اسلام کی توفیق نہیں ملی تھی اُن کی اگلی نسل بھی اُن افراد پر مشتمل تھی جو اسلام کے جانباز سپاہی بنے۔ اُن میں سے ایک بہادر سردار حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ تھے جو کافر ابوجہل کے بیٹے تھے۔ اُنھوں نے جنگِ یرموک میں نہایت دلیری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ ایک اور بہادر جنھیں ناقابلِ شکست سپہ سالار کے طور پر شہرتِ دوام حاصل ہوئی، وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے دو فرزند حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ یہ وہ انمول افراد تھے جنھوں نے اسلامی تاریخ کے اُجلے اوراق پر اپنے کارہائے نمایاں کے سنہرے نقوش ثبت کیے تھے۔
Flag Counter