Maktaba Wahhabi

113 - 112
سید قطب نے تحریر کیا ہے: اس طرح روزے کا بڑا مقصد واضح ہو تا ہے اور وہ تقویٰ ہے۔ اطاعت الٰہی کرتے ہوئے اور ان کی رضا کو ترجیح دیتے ہوئے، روزے کی ادائیگی کے دوران دلوں میں تقویٰ بیدار ہوتا ہے ۔ اس قرآن کے مخاطبین اللہ تعالیٰ کے ہاں تقویٰ کے مقام و مرتبہ اور میزان الٰہی میں اس کے وزن کو جانتے ہیں ۔ تقویٰ ان کی روحوں کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ یہ روزہ اس کے حصول کے لیے ہتھیار ہے ، اور اس تک پہنچانے والا ہے۔ قرآن کریم کا یہ بیان اس واضح منزل کو ان کی آنکھوں کے سامنے پیش کر رہا ہے اور وہ روزوں کے ذریعہ اس کی طرف رواں دواں ہیں{لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} [1] (۸) عدل کرنا اللہ تعالیٰ نے عدل کو بھی سبب تقویٰ قرار دیاہے۔ اللہ جل جلالہ نے ارشاد فرمایا: {اِعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوا اللّٰہَ إِِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ} [2] [عدل کیا کرو، وہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی پوری اطلاع ہے۔] شیخ سعدی اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: ’’تم جس قدر عدل کرنے کی حرص کرو گے ، اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو گے ، تمہارے دل تقویٰ کے اسی قدر زیادہ قریب ہوں گے ، عدل کے مکمل ہونے پر تقویٰ بھی کامل ہو جائے گا۔ [3] تنبیہ: اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بات بیان فرمائی ، کہ عدل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، پھر حکم ارشاد فرمایا: {وَاتَّقُوا اللّٰہَ} [اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو]۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے قاضی ابو سعود تحریر کرتے ہیں: ’’[عدل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے] کے فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا۔ اس میں تقویٰ کے مقام و مرتبہ کو بیان کرنے کا اہتمام اور اس بات کی تنبیہ کی ہے ، کہ وہ معاملہ کی
Flag Counter