Maktaba Wahhabi

96 - 112
زمین اللہ تعالیٰ ہی کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں، اس کا مالک بنادیتے ہیں، اور اخیر کامیابی متقی لوگوں ہی کی ہوتی ہے۔ ] ارشادِ تعالیٰ{اَلْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ} [انجام کار متقیوں کے لئے ہے] سے مراد یہ ہے، کہ ان کے لئے تائید الٰہی ہے اور دنیا و آخرت میں ان کا انجام قابل تعریف ہوتا ہے۔ اس بارے میں ذیل میں چند ایک مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ۱: علامہ زمخشری نے لکھا ہے: ’’ اس بات کی خوش خبری ہے، کہ قابل تعریف انجام متقیوں کا ہی ہے۔ ‘‘[1] ۲: علامہ ابن عطیہ اندلسی ارشاد ربانی: ’’ {وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوَی} کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی ہے، کہ انجام کار تقویٰ والوں کے لئے ہے۔ اور اسی میں سے دنیا میں نصرتِ الٰہی اور آخرت میں ان کی رحمت ہے۔ یہ خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے اور امت اس کے عمومی معنی میں داخل ہے۔ ‘‘[2] ۳: علامہ رازی نے قلم بند کیا ہے: ’’ ارشادِ ربانی {لِلْمُتَّقِیْنَ} میں اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ ہر وہ شخص، جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اور ان سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دنیا و آخرت میں مدد فرماتے ہیں۔ ‘‘[3] ۴: حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: کہ دنیا و آخرت میں عمدہ انجام [اہل] تقویٰ کا ہے۔ [4] ۵: قاضی ابو سعود تحریر کرتے ہیں: {اَلْعَاقِبَۃُ}: یعنی قابل تعریف انجام کار {لِلتَّقْوٰی} تقویٰ والوں کے لیے ہے۔ مضاف [أَھْل] کو حذف کرکے [تقویٰ] مضاف إلیہ کو اس کا قائم مقام کیا گیا، تاکہ اس بات کی جانب تنبیہ ہوجائے، کہ معاملہ کا دارو مدار تقویٰ پر ہے۔ [5] ۶: شیخ سعدی نے لکھا ہے: {وَالْعَاقِبَۃُ} دنیا و آخرت میں انجام کار {لِلتَّقْوٰی}[تقویٰ [والوں] کے لیے] اور تقویٰ اوامر کا بجا لانا اور منہیات کو چھوڑنا ہے۔ جس شخص نے ایسا کیا، اس کے لیے انجام کار ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ} [انجام کار
Flag Counter