انہیں صدقات جمع کرنے کے لیے روانہ کیا، اور فرمایا:
’’ یا أَبَا الْوَلِیْد! اتَّقِ اللّٰہ! لَا تَأتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِبَعِیْرٍ تَحْمِلُہُ لَہُ رُغَائٌ ، أَوْ بَقَرَۃٌ لَہُ خُوَار، أَوْ شَاۃٌ لَّہُ تُغَائٌ۔‘‘ [1]
[اے ابو الولید! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو! ایسا نہ ہو ، کہ قیامت کے دن بلبلاتے ہوئے اونٹ، یا ڈکارتی ہوئی گائے ، یا ممیاتی ہوئی بکری کو اُٹھاتے ہوئے آؤ ۔‘‘]
۹: امام احمد اور امام ترمذی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ ایک شخص نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں، مجھے وصیت فرمائیے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’عَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالتَّکْبِیْرِ عَلَی کُلِّ شَرَفٍ۔‘‘ [2]
[اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو لازم کرو اور ہر اونچائی پر [اللہ اکبر] کہو۔]
۱۰: امام احمد نے حضرت حرملہ عنبری رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ، کہ انہوں نے بیان کیا:’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! مجھے وصیت فرمائیے۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اِتَّقِ اللّٰہَ ! وَإِذَا کُنْتَ فِيْ مَجْلِسٍ فَقُمْتَ مِنْہُ ، فَسَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا یُعجِبُکَ فَآتِہِ ، وَإِذَا سَمِعْتَھُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا تَکْرَہُ ، فَاتْرُکْہُ۔‘‘ [3]
[اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ جب تم کسی مجلس میں ہو اور اس سے اُٹھ کر چلے جاؤ ، پھر انہیں وہ بات کہتے ہوئے سنو ، جو تمہیں پسند ہو، تو اس [مجلس] میں آجاؤ ، اور اگر انہیں
|