Maktaba Wahhabi

159 - 495
صورت مسئولہ میں وہ مسافر جو ظہر کے وقت نمازعصر پڑھ چکا ہے اگر وہ اپنی منزل پر عصر کے وقت پہنچ جائے تو اسے دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔(واللہ اعلم) سوال۔حافظ خالد محمود فیصل آباد سے دریافت کرتے ہیں کہ ہر نماز کے بعد باآواز بلند کلمہ کا ورد کرنا شرعاً کیسا ہے، نیز ہم جب قبرستان جاتے ہیں تو اہل قبورکو سلام کہتے ہیں کیا وہ ہمارا سلام سنتے اور جواب دیتے ہیں؟ جواب۔ہر نماز کے بعد بلند آواز میں کلمہ طیبہ کا ورد کرنے کے متعلق کوئی حدیث منقول نہیں ہے۔البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول بایں الفاظ مروی ہے:''فرض نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پایاجاتا تھا۔(صحیح بخاری :باب الذکر بعد الصلاۃ) لیکن اس روایت میں مطلق ذکر کا بیان ہے، کلمہ لاالٰه الا اللّٰه کی تخصیص نہیں ہے۔بلکہ اس روایت کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہےجس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اختتام کو ''اللہ اکبر'' کہنے سے معلوم کرتا تھا، یعنی آپ سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے اللہ اکبر کہاکرتے تھے جس سے مجھے پتا چل جاتا کہ نماز ختم ہوچکی ہے۔ لیکن اس روایت کا ہمارے ہاں رائج کردار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جس میں نماز کے بعد سپیکرکھول کر آپس میں تال سر ملاتے ہوئے لاالٰه الا الله کی ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ایسا کرنا نہ صرف خلاف سنت ہے بلکہ نمازی حضرات کے لئے باعث تشویش بھی ہے۔نیز ایسا کرنے سے ریا کاری اور نمائش کا پہلو زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔ اس بنا پر نماز کے بعد ذکر اذکار آہستہ آواز سے کرناچاہیے تاکہ نمازیوں کےلئے اذیت کا باعث نہ ہو اور نہ ہی ریاکاری کاشائبہ پایا جائے۔ جہاں تک اہل قبور کو سلام کہنے کا تعلق ہے یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے، یعنی یہ سلام دعا ہے، سلام تحیۃ نہیں جس کاجواب دینا سننےوالےکے لئے ضروری ہوتا ہے۔ اہل قبور کالفظ ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھا رہا ہے کہ اس شہر خموشاں میں رہنے والوں کاتعلق اہل دنیا سےمنقطع ہوچکا ہے۔اب یہ حضرات عالم برزخ میں ہیں۔جس کا نظام دنیا کے نظام سے الگ تھلگ ہے۔اہل قبور کے سننے اور پھر ان کے جواب دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، قرآن مجید میں ہے:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ اہل قبور کو نہیں سنا سکتے۔''(35/فاطر:22) اس نص قطعی کے بعد مردوں کے سننے کے لئے کونسی گنجائش رہتی ہے؟ سوال۔سانگلہ ہل سے ملک عبد الستار لکھتے ہیں کہ بے نماز کے ہاتھ سے پکی ہوئی چیز کھانا جائز ہے یا نہیں؟کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب۔اس سوال کا پس منظر یہ معلوم ہوتاہے کہ متعدد احادیث کے مطابق بے نماز کافر ہے تو کیا کفر کے مرتکب انسان کے ہاتھوں پکی ہوئی چیز استعمال کی جاسکتی ہے؟اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کہ کفر اور بندے کے درمیان نماز کاپردہ ہے۔''یعنی اگر نماز کوترک کردیا جائے تو کفر کی حدیں انسان سے مل جاتی ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ بندے اور کفر وشرک کو باہمی شیر وشکر کردینے والی چیز نماز کا ترک کردینا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض ائمہ دین نے بے نماز کا تلوار سے سرقلم کردینے کا حکم دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نماز چھوڑنے سے جو کفر لازم آتاہے وہ کون سا کفر ہے؟کیا ایسا کفر ہے جس کے ارتکاب سے انسان
Flag Counter