Maktaba Wahhabi

160 - 495
دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے یا''کفردون کفر''کی قسم سے ہے۔جس کے ارتکاب سے انسان دائرہ اسلام سے توخارج نہیں ہوتا،البتہ کبیرہ گناہ کا سزاوار ٹھہرتا ہے۔ہمارے نزدیک تارک نماز کفر کا مرتکب ضرور ہوتا ہے مگر یہ کفر اسے اس مقام پر نہیں پہنچاتا جہاں وہ اسلام لانے سے پہلے تھا۔چنانچہ حدیث میں ہے:'' پانچ نمازوں کو اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دیا ہے جو شخص اچھی طرح وضوکرکے بروقت انہیں ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ان کے رکوع وسجدہ کو اعتدال سے بجا لاتاہے خشوع وخضوع کو بھی برقرار رکھتا ہے ایسے نمازی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے ضرور معاف فرمائے گا ، اگر کوئی ایسا نہیں کرتا تو وہ اللہ کی مشیت کے تحت ہے اگر چاہے تو معاف کردے چاہے توسزا دے۔(مسند امام احمد:5/322) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا تارک ایسے کفر کامرتکب نہیں ہوتا جس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے کیوں کہ دائرہ اسلام سے خارج ہونے والا اللہ کی مشیت کے تحت نہیں بلکہ انہیں تو یقیناً جہنم کا ایندھن بنایاجائے گا۔ اس وضاحت کے بعد ترک نماز ایک سنگین جرم ہےلیکن اس کی پکی ہوئی چیز استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ خاوند بے نماز بیوی سے اس قسم کا احتجاج کرسکتا ہے تاکہ اس کا دماغ درست ہوجائے۔عام لوگوں کے متعلق اس قسم کا ضابطہ عمل میں لانا بہت مشکل ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک یہودی عورت کے گھر سے کھانا تناول فرمایا تھا۔جبکہ اس نے آپ کو دعوت طعام دی تھی اور کھانے میں سخت قسم کا زہر بھی ملادیا تھا۔اس طرح کے متعدد واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتاہے کہ کفار کے ساتھ قلبی تعلقات تو نہیں رکھے جاسکتے،البتہ دیگر روابط قائم کیے جاسکتے ہیں جبکہ مقصود انہیں اسلام کے قریب کرنا ہو، کھانا وغیرہ اسی قسم سے ہے۔لہذا صورت مسئولہ میں بے نماز کے ہاتھ سے پکی ہوئی چیز استعمال کی جاسکتی ہے۔(واللہ اعلم)
Flag Counter