Maktaba Wahhabi

186 - 495
بردا شت کر نا پڑ تے ہیں ،آبیانہ وغیرہ ادا کر نا ہو تا ہے ،اس کے با و جود نہر ی پا نی فصلو ں کے لیے کا فی نہیں ہو تا ،اس کےلیے دوسر ے ذرائع سے ضروریات کو پو را کیا جا تا ہے ۔ (2)ٹیو ب ویل :ٹیو ب ویل لگا نے کےلیے کا فی رقم درکا ر ہو تی ہے جب اس کی تنصیب مکمل ہو جا تی ہے واپڈا کا رحم و کر م شروع ہو جا تا ہے ما ہ بما ہ کمر تو ڑ اور اعصا ب شکن بجلی کا بل ادا کر نا پڑتا ہے یا پھر گھنٹے کے حساب سے پا نی خرید کر کھیتو ں کو سیراب کیا جا تا ہے، لہذا زمین سے پیداوار لینے کے لیے ذاتی محنت و مشقت اور ما لی اخرا جا ت کے پیش نظر ہما رے ہا ں پیدا وار پر نصف العشر یعنی بیسوا ں حصہ بطو ر زکو ۃ دینا ہو تا ہے، اس کے علا وہ جتنے بھی اخرا جا ت ہیں ان کا تعلق زمین کی سیرا بی یا آب پا شی سے نہیں ہے بلکہ وہ اخرا جا ت زمیندا ر پیدا وار بچا نے یا بڑھا نے کےلیے کر تا ہے، مثلاً کھا د سپرے وغیر ہ یا پھر زمیندار اپنی محنت و مشقت سے بچنے اور اپنی سہو لت کے پیش نظر کر تا ہے، مثلاً بو تے وقت ٹر یکٹر کا استعمال، کٹا ئی کے وقت مز دو ر کو لگا نا یا فصل اٹھاتے وقت تھر یشر وغیرہ کا استعما ل۔ مختصر یہ کہ شریعت نے مقدار عشر کےلیے زمین کی سیرابی کو مدار بنا یا ہے اس کے علا وہ جو اخرا جا ت ہیں ان کا تعلق مقدار عشر سے نہیں ہے، لہذا جہاں زمین کی سیرا بی کے لیے قدرتی وسا ئل ہو ں گے وہا ں پیداوار سے عشر (دسوا ں حصہ ) لیا جا ئے گا اور جہا ں زمین سیراب کر نے کےلیے قدرتی وسا ئل نہیں بلکہ محنت و مشقت کر نا پڑ یں تو وہا ں نصف العشر یعنی بیسواں حصہ دینا ہو گا۔ہمارے ہا ں عام طور پر پیداوار کا بیسواں حصہ دیا جا تا ہے، پیداوار میں دسواں دینے والی زمینیں بہت کم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عا م طو ر پر مہا جر ین تجا رت اور انصار زراعت پیشہ تھے وہ لو گ زمین کو خو د کاشت کر تے تھے اور خود ہی کا ٹتے اور فصل اٹھا تے تھے،البتہ زمینو ں کی سیرا بی کےلیے محنت و مشقت اور اخراجا ت بردا شت کرنے کی وجہ سے انہیں پیداوار سے بیسوا ں حصہ بطور عشر ادا کر نا ضروری تھا،اس کے علا ہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے منہا نہیں کیے جا تے تھے،اسی طرح خیبر کی زمین پیداوار کے طے شدہ حصے کے عوض کا شت کی جا تی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو حصہ ملتا اگر وہ نصا ب کو پہنچ جا تا تو اس سے اللہ تعالیٰ کا حصہ الگ کر دیتے تھے، زمیندا ر چو نکہ زمین کا ما لک ہو تا ہے وہ ٹھیکے کی اس رقم کو اپنی مجمو عی آمدنی میں شا مل کر کے اگر وہ نصاب تک پہنچتی ہےتو اس میں سے زکو ۃ ادا کر ے گا اور زمین ٹھیکے پر لینے والا کا شت کر نے میں صا حب اختیا ر ہوتا ہے اور پیداوار کا ما لک بھی وہی ہوتا ہے تو وہ مختا ر کی حیثیت سے ادا عشر کر ے گا، ٹھیکے کی رقم اس سے منہا نہیں کی جا ئے گی، اسی طرح سہو لت کےلیے یا اپنی پیداوار بڑھا نے کےلیےجو رقم خر چ کی جا تی ہے یہ اخرا جا ت بھی پیدا وار سے منہا نہیں ہو ں گے، ا لبتہ محنت و مشقت یا ما لی اخرا جا ت جو زمین کی سیرابی پر آتے ہیں ان کے پیش نظر شر یعت نے اسے رعا یت دی ہے کہ وہ اپنی پیداوار سے بیسواں حصہ ادا کرے، اگر اس رعا یت کے با و جود ٹھیکہ کی رقم کھا د، سپرے کےلیے اخرا جا ت ، کٹا ئی کےلیے مزدوری اور تھر یشر وغیرہ کے اخرا جا ت بھی منہا کر دئیے جا ئیں تو با قی کیا بچے گا جو عشر کے طور پر ادا کیا جا ئے گا، لہذا ہما را رجحا ن یہ ہے کہ کا شتکا ر کسی قسم کے اخرا جا ت منہا کیے بغیر اپنی پیداوار سے بیسواں حصہ بطو ر عشر ادا کرے گا بشرطیکہ اس کی پیداوار پا نچ وسق تک پہنچ جا ئے اگر اس سے کم ہے تو عشر نہیں ہو گا، ہا ں اگر چا ہے تو دینے پر قد غن نہیں ہے ، (واللہ اعلم )
Flag Counter