Maktaba Wahhabi

232 - 495
قیامت کے دن میرے ذمے کسی کا حق ہو۔''(مسند امام احمد :3/156) اس بنا پر اشیاء کی قیمتیں توقیفی نہیں ہیں کہ ان میں کمی بیشی نہ ہوسکتی ہو۔ نیز کسی چیز کا نفع لینے کی شرح کیا ہو؟اس کے متعلق بھی شریعت کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ بعض صحابہ کرام سے ایسے واقعات بھی منقول ہیں کہ انھوں نے قیمت خرید پر دوگنا نفع وصول کیا۔(صحیح بخاری) صورت مسئولہ یوں ہے کہ ایک دکاندار اپنی اشیاء بایں طور فروخت کرتا ہے کہ نقد ادائیگی کی شکل میں ایک چیز کی قیمت 300 روپے ہے لیکن وہی چیز ایک سال کے ادھار پر 400 ر وپے میں اور دو سال کےادھار پر 500 میں فروخت کرتا ہے۔ ادھار کی شکل میں خریدار کو اختیارہے کہ وہ سال کے اختتام پر واجب الادا رقم یکمشت ادا کردے یا حسب معاہدہ اس رقم کو بالاقساط اداکردے۔موجودہ دور میں قسطوں پراشیائے ضرورت بیچنے کا رواج تمام اسلامی ممالک میں عام ہوچکا ہے اور بہت سے لوگ اپنی ضرورت کی اشیاء صرف قسطوں پر خرید سکتے ہیں۔ اور نقد خریدنا ان کی طاقت سے باہر ہوتاہے۔ واضح رہے کہ قسطوں کی صورت میں ایک چیز کی قیمت بازاری قیمت سے زیادہ مقرر کی جاتی ہے۔ بعض علماء اس زیادتی کو ناجائز کہتے ہیں کیوں کہ ثمن کی یہ زیادتی ''مدت'' کے عوض میں ہے اور جو ثمن ''مدت'' کے عوض میں ہو وہ سود ہے جسے شریعت نے حرام کہا ہے۔ علامہ شوکانی نے زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ،ناصر، ہادویہ کا یہی مسلک نقل کیا ہے لیکن ائمہ اربعہ، جمہور فقہاء اور محدثین کا مسلک یہ ہے کہ خریدوفروخت کے عمومی دلائل کے پیش نظر ادھا ر بیع میں نقد کے مقابلے میں قیمت زیادہ کرنا جائز ہے۔بشر طیکہ خریدار اور فروخت کنندہ ادھار یانقد قطعی فیصلہ کرکے کسی ایک قیمت پر متفق ہوجائیں۔(نیل الاوطار :5/172) لہذا اگر بائع یہ کہے کہ میں یہ چیز نقد اتنے میں اور ادھار اتنے میں فروخت کرتا ہوں، اس کے بعد کسی ایک بھاؤ پر اتفاق کیے بغیر دونوں جدا ہوجائیں، جہالت ثمن کی وجہ سے یہ بیع ناجائز ہے۔ لیکن اگر عاقدین مجلس عقد میں ہی کسی ایک شق اور کسی ایک ثمن پر اتفاق کرلیں تو بیع جائز ہوجائےگی۔چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جامع ترمذی میں لکھتے ہیں: ''بعض اہل علم نے حدیث (( بيعتين في بيعۃ )) کی تشریح بایں الفاظ کی کہ'' بائع مشتری سے کہے کہ میں یہ کپڑا تمھیں نقد دس اور ادھار بیس روپے میں فروخت کرتا ہوں اور کسی ایک بیع پر اتفاق کرکے جدائی نہیں ہوئی لیکن اگر ان دونوں میں سے کسی ایک پراتفاق ہونے کے بعد جدائی ہوئی تو اس میں حرج نہیں کیوں کہ معاملہ ایک پر طے ہوگیا ہے۔''(جامع ترمذی :کتاب البیوع) امام ترمذی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ (( بيعتين في بيعۃ )) کے ناجائز ہونے کی علت یہ ہے کہ عقد کے وقت کسی ایک صورت کی عدم تعیین سے ثمن دو حالتوں میں مترود ہوجائےگی۔اور یہ تردد جہالت ثمن کو مستلزم ہے جس کی بنا پر ناجائز ہوئی، مدت کے مقابلہ میں ثمن زیادتی ممانعت کا سبب نہیں ،لہذا اگر عقد کے وقت ہی کسی ایک حالت کی تعیین ہوجائے اور جہالت ثمن کی خرابی دور کردی جائے تو پھر اس کے جواز میں شرعاً کوئی قباحت نہیں رہے گی۔ کیونکہ قرآن وحدیث میں اس بیع کے عدم جواز پر کوئی نص موجود نہیں۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ معاملات کے متعلق فرماتے ہیں:'' جو معاملات انسان کوضرورت کے طور پرپیش آتے ہیں وہ سب حلال اور جائز ہیں الا یہ کہ اس کی حرمت پر قرآن وحدیث میں کوئی واضح دلیل موجودہو۔''(مجموع الفتاویٰ :28/386) ہم نے آغاز میں جو ایک اصول بیان کیا تھا اسے ایک مرتبہ پھر بنظر غائر دیکھ لیا جائے اور اس بیع میں جو ثمن کی زیادتی ہےاس
Flag Counter