Maktaba Wahhabi

274 - 495
بیمہ کا کاروبار اس لئے بھی حرام اور ناجائز ہے کہ اس میں جوا پایاجاتا ہے جوقرآن کریم کی نظر میں ایک شیطانی عمل ہے۔حصول زر کی ہر وہ شکل جوا ہے جس میں اسے حاصل کرنے کادارو مدار محض اتفاق پر ہوا اور دوسرے یکساں حق رکھنے والوں کے مقابلہ میں ایک شخص کسی لاٹری، قرعہ اندازی یا محض کسی اور اتفاق کے نتیجہ میں رقم کو حاصل کرلے۔یہ تمام جوا کی اقسام ہیں۔جوا کی تعریف کاروبار بیمہ پر اس طرح صادق آتی ہے کہ جو ا میں فریقین اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ وہ دوسرے کو ایک مقررہ رقم کوئی حادثہ پیش آنے پر ادا کرے گا۔کاروبار بیمہ میں بھی یہی ہوتاہے کہ بعض اوقات طالب بیمہ ایک قسط اد کرنے کے بعد مرجاتا ہے تو اس کے نامزد کردہ وارث کو ادا کردہ رقم سے کئی گنازیادہ رقم ملتی ہے،اس کا اس طرح مرنا ایک اتفاقی حادثہ ہے جو نامزد وارث کے لئے کثیر ر قم ملنے کا باعث بنا ہے، تھوڑی سی محنت کرکے اتفاقی طور پر بہت زیادہ رقم ہتھیا لینا میسر کہلاتاہے جس سے قرآن کریم نے منع فرمایا ہے، اس طرح طالب بیمہ اگر معینہ مدت سے پہلے اپنے عقد کو فسخ کرنا چاہےاور بقیہ اقساط کی ادائیگی روک لے تو ا س صورت میں کمپنی جمع شدہ رقم کی مالک بن جاتی ہے ۔یہ بھی قمار کی ایک قسم ہے جس کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ اس کاروبار میں سود کی دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں طالب بیمہ جو رقم اقساط کی صورت میں کمپنی کو ادا کرتا ہے اگر حادثہ کے وقت اس کے مساوی رقم واپس ملے تو ایک طرف سے نقد ادائیگی اور دوسری طرف سے ادھار ہونے کی بنا پر یہ ادھار کا سود ہے جسے شریعت کی اصطلاح میں ربا النسیئہ کہتے ہیں اور اگر ادا کردہ رقم سے زیادہ ہے تو یہ اضافے کا سود ہے جسے ربا الفضل کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ زائد رقم اس کی ادا کردہ رقم کے عوض ملتی ہے، سود یہی ہوتاہے کہ ایک آدمی کچھ رقم کسی دوسرے کو دیتا ہے، پھر ایک خاص مدت کے بعد اس رقم کے عوض کچھ زائد رقم وصول کرتا ہے، جبکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:'' اگر تم توبہ کرلو تو صرف اپنی رقم کے حقدار ہو۔''(2/البقرہ :279) نیز معینہ مدت تک زندہ رہنے اور تمام اقساط اد ا کرنے کی صورت میں طالب بیمہ مجموعی رقم سے زائد زر بیمہ لینے کامستحق ہوتا ہے، یہ اضافہ کے ساتھ خطیر رقم یکمشت یابالا اقساط لے سکتا ہے، یہ سود کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ کاروبار بیمہ ضابطۂ وراثت سے متصادم ہے۔ یہ کاروبار اس لئے بھی ناجائز ہےکہ اس پر عمل کرنے سے ضابطہ ٔوراثت مجروح ہوتا ہے کیوں کہ مرنے کی صورت میں زر بیمہ کا مالک وہ نامزد شخص بن جاتا ہے جو طالب بیمہ نے اپنی زندگی میں مقرر کیا ہوتا ہے ،باقی ورثاء اس سے محروم ہوتے ہیں حالانکہ اس کے ترکہ میں تمام شرعی ورثاء شریک ہوتے ہیں۔ دور جدید میں فلمی ادا کارہ کے حسن وجمال اور ایک مغنیہ اور گلوکارہ کی آواز کابیمہ بھی ہوتا ہے اس نے ایسے نام نہاد مفادات کو جنم دیا ہے جنھیں شریعت سرے سے کوئی مفاد ہی تسلیم نہیں کرتی۔اس طرح اس کاروبار میں تعاون علی الاثم والعدوان بھی پایا جاتا ہے، لہذا اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ سوال میں اس پہلو کو بھی اٹھایا گیا ہے کہ کاروبار بیمہ میں جو ر قم جمع ہوتی ہے اسے کاروبار میں لگایا جاتا ہے، پھر اس کے منافع یا نقصانات کو سرمایہ لگانے والوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔یعنی یہ مضاربت کی ایک قسم ہے، اس کاروبار کی مضاربت قرار دینادرج ذیل
Flag Counter